کتاب: الصادق الامین - صفحہ 78
زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی سیاسی زندگی عرب قومیں اورفارس وروم کی حکومتیں: اب تک عرب امارات اور ان کے حُکّام کے بارے میں جو کچھ لکھاگیا، اس سے معلوم ہوا کہ عرب قومیں، زمانۂ جاہلیتِ قدیم میں، اور جاہلیتِ جدید میں اسلام آنے سے کچھ پہلے تک، اُس وقت کی دنیا کی دو عظیم قوتوں فارس وروم کے درمیان مجبورِ محض بن کررہ گئی تھیں۔ یہ لوگ اپنے سیاسی امور میں اِن دونوں عظیم طاقتوں اور ان کے حلیفوں کے درمیان بٹ کر رہ گئے تھے۔ غساسنہ اپنے عرب بھائیوں مناذرہ اور اہل فارس کے خلاف رومانیوں اور ان کے حُلفاء باز نطینوں کے آلۂ کار تھے۔ اور فارس کے ساسانی بادشاہوں نے مناذرہ کو ڈھال بنا رکھا تھا جو انہیں عرب بدوؤں کے حملوں سے محفوظ رکھتے تھے، اور رومانیوں اور بازنطینوں کے خلاف استعمال ہوتے تھے۔ اُن کی داخلی سیاسی حالت کے بارے میں ابھی کچھ ہی سطور قبل لکھ آیا ہوں کہ قبائل عرب ٹولیوں میں بٹے ہوئے تھے۔ کمزور قبائل قوی قبائل کے ساتھ مل کر اپنے خلاف دیگر قبائل کے ظلم وجور کو روکتے تھے۔ حالت یہ تھی کہ سبھی ضعیف وقوی، غلام وسیّد میں بٹے ہوئے تھے۔ قوی کمزور پر ظلم کرتا تھا،اور جبر واستبداد اس کا شیوہ ہوتا تھا۔ اوراُن کے آپس میں انسانوں کے معمولی حقوق تک ضائع ہوچکے تھے۔ سیاسی قرار دادوں میں مکہ کا کردار: جیسا کہ اوپر بیان کیا جاچکاکہ مکہ حجاز کا اہم ترین شہر تھا، اور علاقہ میں سیاسی قراردادوں کے سلسلہ میں اس کا بہت ہی اہم کردار تھا، اس لیے کہ وہ زمانۂ جاہلیت میں بُت پرستوں کا سب سے اہم دینی مرکز تھا، اور تمام تجارتی قافلوں کی باگ ڈور اسی کے ہاتھ میں تھی۔ اور حبشہ کے مسیحیوں کے مکہ پر حملہ کرنے اور اللہ کے عذاب کے ذریعہ ان کی بد ترین ہلاکت کے بعدتو اس کی سیاسی اور دینی حیثیت بہت ہی مضبوط ہوگئی تھی۔ گویا مکہ عربوں کی آزادی، ان کی عزت وشرف اور ان کی قوت کا نشان بن گیا تھا، کبھی کسی اجنبی بادشاہ کا اُس پر قبضہ نہیں ہوا۔ سردارانِ مکہ دار الندوہ میں جمع ہوا کرتے تھے، یہ ان کا پارلیمنٹ ہاؤس تھا، اس میں چالیس سال سے کم عمر شخص داخل نہیں ہوسکتا تھا۔ دار الندوہ کے شیوخ کا انتخاب ان کی دولت اور سابقہ خدمات کے مطابق ہوتا تھا۔ شیوخِ مکہ کی یہ مجلس ان کے تجارتی اور مذہبی امور سے متعلق فیصلے کرتی تھی۔ اور اکثر عرب، ساداتِ قریش کو غساسنہ اور شاہانِ فارس آلِ کسریٰ سے بالا تر سمجھتے تھے۔ مکہ کی آبادی دو قسم کے قریشیوں پر مشتمل تھی:’’ قریش البِطاح‘‘ یعنی وہ قریشی جومکہ کے بالکل اِرد گرد آباد تھے، اور