کتاب: الصادق الامین - صفحہ 77
یہ تمام بدوی قبائل جو مکہ اور حِیرہ جیسے شہروں میں آکر آباد ہوگئے تھے، اِن سب کا سیاسی نظام یہی قبائلی نظام تھا، اور انہی بنیادوں پر یہ قبائل کبھی کبھار متحد ہو کر کچھ دوسرے قبائل کے خلاف ’’اتحاد‘‘ بناتے تھے، اور اتحاد میں شریک قبائل ایک دوسرے کی خوشی اور غم میں شریک ہوتے تھے۔ جیسے مکہ کاحلف المطیبین،حلف الفضول اور حلف الرّباب۔
تمام قبائل کی الگ الگ مجلسیں ہوتی تھیں جن کے اَرکان قبائلی شاخوں کے شیوخ ہوتے تھے،اور حسبِ ضرورت اور مشکل گھڑیوں میں عام طور پر شام کے وقت اس مجلس میں جمع ہوتے تھے۔ اور قبیلہ کا سردار وہ مردِ دور اندیش ہوتا تھا جوتجربہ کی بھٹی میں پک کر کُندن بن چکا ہوتا تھا اور بسا اوقات اُسے یہ سیادت اس کے آباء واجداد سے وراثت میں ملی ہوتی تھی۔ اور قبیلہ کے دیگر تمام افراد قبیلہ کی خدمت اور اس کے حقوق کی حفاظت کے لیے اپنی جانیں ہر دم حاضر رکھتے تھے۔اور سب سے بڑا حق قبیلہ کے کسی فرد کا کسی دوسرے قبیلہ کے فرد سے انتقام لینا ہوتا تھا۔چنانچہ ہر فرد قبیلہ کے لیے اپنی جان اور اپنے مال کی قربانی پیش کرتا تھا، اس لیے کہ ایسا ہی کرنے میں اس کی بقا اور اس کے وجود کی حفاظت کی ضمانت تھی۔ اور یہی وجہ تھی کہ یہ قبائلی لوگ اپنے اپنے قبیلہ کو اپنے دینی شعائر سے زیادہ مقدس جانتے تھے۔
انہی مذکور بالا اسباب کی وجہ سے زمانۂ جاہلیت میں عربوں کی زندگی میں جنگ کو ایک خصوصی اہمیت حاصل تھی۔ اور جیسا کہ لکھا گیا، قانونِ انتقام اُن کے نزدیک سب سے بڑا قانون تھا، یہی ان کی مقدس شریعت تھی جسے اُن کے نزدیک مذہبی حیثیت حاصل تھی۔ [1]
****
[1] ۔ تاریخ العرب قبل الإسلام:1/220، العصر الجاہلی: ص/55-66۔