کتاب: الصادق الامین - صفحہ 76
دو بُت پرست قبیلے رہتے تھے۔ ان کی زندگی نجد میں رہائش پذیر بدوی قبائل کی زندگی سے کچھ زیادہ مختلف نہیں تھی،سوائے اس کے کہ انہیں اپنی کھیتیوں اور پھلدار درختوں کے سبب مکہ میں رہنے والے قریشیوں کی طرح سکون وقرار حاصل تھا۔
تقریباً چار سو پچاس کلو میٹر کی دوری پر ایک سر سبز وادی میں ’’یثرب‘‘ نام کا شہر آباد تھا۔ یہاں بہت سے کنویں اور چشمے پائے جاتے تھے جن کے سبب یہ علاقہ ایک خوبصورت زرخیز زراعتی علاقہ بن گیا تھا جو کھجوروں، پھلدار درختوں اورہرے بھرے کھیتیوں سے مالا مال تھا۔
مؤرخین کا کہنا ہے کہ یہاں سب سے پہلے عمالقہ آباد ہوئے، پھر دوسری صدی عیسوی میں یہودِ فلسطین آئے جو رومانیوں کے ظلم واستبداد سے مجبور ہو کر فلسطین سے بھاگ کر یہاں آباد ہوگئے ،اور اپنے دین پر قائم رہے، یہاں تک کہ اسلام آیا، اور پورے حجاز میں پھیل گیا۔ لیکن ان یہودیوں میں سے چند ہی لوگ اسلام میں داخل ہوئے۔ البتہ عربی اُن کی روز مرّہ کی زبان ہوگئی ، اور اپنے دینی شعائر کی ادائیگی کے لیے عبرانی زبان سے بھی چمٹے رہے ۔
پھر جنوب سے اوس وخزرج قبائل کاورود ہوا،اور رفتہ رفتہ یہی لوگ حقیقی سردار انِ یثرب بن گئے۔ یہ لوگ بُت پرست تھے، اور باقی عربوں کی طرح مکہ کاحج کرتے تھے، اور خانۂ کعبہ کے اِرد گرد موجود بتوں کی عبادت کرتے تھے۔ اِن لوگوں کی زندگی بھی خیمہ میں رہنے والے بدوؤں سے کچھ مختلف نہ تھی۔
یہود ہمیشہ اَوس وخزرج کے درمیان اختلاف پیدا کرتے رہے، جس کے سبب وہ آپس میں جنگ کرتے رہے، اور طُرفہ تماشہ یہ کہ یہود ہی اسلحہ بنابنا کر اُن کو دیتے رہے جن کے ذریعہ وہ جنگوں میں ایک دوسرے کا خون بہاتے رہے۔ اُن کے درمیان ان جنگوں نے اتنا طول پکڑا کہ ان کی زندگی اجیرن ہوگئی، اور وہ فنا کے گھاٹ اترنے کے قریب ہوگئے۔اوس وخزرج اِنہی حالات سے گزر رہے تھے کہ اللہ نے ان کے لیے اپنے رسولِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیج دیا جن کی بدولت وہ آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔
شمالِ مدینہ میں یہود کی خاص بستیاں تھیں، جن میں سے مشہور خیبر، فَدک اور تیماء نام کی بستیاں تھیں۔یہ لوگ انہی بستیوں میں رہتے رہے، یہاں تک کہ سیّدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انہیں جزیرہ ٔ عرب سے باہر نکال دیا۔ اور یہ بات بالکل صحیح ہے کہ زمانۂ جاہلیت کے عرب اِن تمام یہودیوں کی طرف سے کبھی بھی مطمئن نہیں رہے۔ یہی وجہ ہے کہ یہ یہود عربوں کی دینی زندگی پر اپنا کوئی بھی اثر نہ ڈال سکے۔ [1]
بدوی قبائل کی حکومت:
جو عرب قبائل بلاد عربیہ کے مشرق ومغرب اور جنوب وشمال میں پھیلے تھے، اُن کا اپنے حسب ونسب سے ہمیشہ ہی بڑا گہرا ربط رہا، اور ان کی تمام جماعتیں اور ٹولیاں اسی بنیاد پر قائم تھیں۔ اور اسی بنیاد پر دو بڑے مجموعوں میں بٹے ہوئے تھے۔ قحطانی یمنی مجموعہ اور مُضَری عدنانی مجموعہ۔ اِن کی اولاد نے اپنے آباء واجداد کی طرف سے سیکڑوں سال سے اِنہی قبائلی جماعتوں اور ٹولیوں کو وراثت میں پایا تھا، حتی کہ اسلام آنے کے بعد بھی ان عربوں کی اولاد نے یہی کچھ وراثت میں پایا۔
[1] ۔ العصر الجاہلی ،ڈاکٹر شوقی ضیف: 53-54۔