کتاب: الصادق الامین - صفحہ 75
بُت پرستی کو رواج دیا۔ قبیلۂ خزاعہ کے لوگ خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال کرتے رہے، یہاں تک کہ قُصَیّ بن کلاب بن مُرّہ پانچویں صدی عیسوی کے نصف میں ابو غبشان خزاعی سے مکہ کی سیادت اور خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال کرنے کا شرف چھیننے میں کامیاب ہوگیا۔ قَصّی نے مکہ کو اپنی کوششوں سے ایک اہم اقتصادی، دینی اور اَدبی مرکز بنا دیا، اور چھٹی صدی کے اواخر اور اسلام آنے سے قبل ساتویں صدی کے اوائل میں عام عربوں نے اہلِ مکہ کی سیادت تسلیم کر لی تھی۔ قصی نے ہی دار الندوۃ بنایا تھا جو قریشیوں کی مجلسِ استشاری کا آفس تھا۔ قریش کے لوگ وہیں سے اپنا جنگی عَلَم باندھتے تھے، وہیں سے قریشیوں کے تجارتی قافلے چہار طرف نکلتے تھے، جیسا کہ اس سے قبل قُصَیّ کے ذِکر میں یہ بات بیان کی جاچکی ہے۔ قُصَیّ نے اپنے لیے اُن چھ(6) کاموں کو مخصوص کر لیا تھا جو شہرت ونیک نامی اور عزت ووقار کا سبب تھا۔ اُس نے اپنے بعد اپنے دو بیٹوں ؛عبدالدار اور عبد مناف کو نائب بنا دیا تھا۔ عبد الدار کو بیت حِرام کی دیکھ بھال، اس کی دربانی، دارالندوہ، اور جنگی عَلَم کی ذمہ داری دے دی، اور عبد مناف کو حجاج کو پانی پلانے، اُن کی میزبانی اور قیادت کی ذمہ داری سونپی۔ان دونوں کے بعد یہ مناصب ان کی اولاد میں منتقل ہوتے رہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ کو فتح کر لیا۔ اُس وقت حجاج کو پانی پلانے اور خانۂ کعبہ کی دیکھ بھال کے سوا دیگر تمام مناصب ختم کردیے گئے۔ در حقیقت مکہ کی قوت کا راز اس کے قائدین کی قوت اور ان کی اس دور اندیشی میں پوشیدہ تھا کہ انہوں نے تمام اہلِ مکہ کو ایک فکر، ایک رائے، وحدتِ قبیلہ اور بیتِ حرام کے تقدُّس پر متحد کر دیا تھا جسے تمام عرب مقدس مانتے تھے، اور اپنی آزادی، عزّت وشرف اور قوت کانشان جانتے تھے۔نیز اُس کی قوت کا راز وہاں کی زبردست تجارتی نقل وحرکت میں پنہاں تھا، جو کبھی سُست نہیں پڑتی تھی۔ مکہ عربوں کا تجارتی مرکز اور ان کے مقدس خانۂ کعبہ کا شہر تھا، وہیں اُن کی مذہبی عیدیں ہوتی تھیں ، اُسی کے قرب وجوار میں سُوقِ عکاظ، سُوقِ مجنّۃ اور سوقِ ذی المجاز جیسے تجارتی بازار لگتے تھے۔ اکثر عرب ساداتِ قریش کو غساسنہ سے بڑا مانتے تھے، بلکہ انہیں شاہانِ فارس آل کِسریٰ سے بھی زیادہ اہمیت دیتے تھے۔ انہی تمام وجوہ سے مکہ زمانۂ جاہلیت میں اہم ترین عربی شہر مانا جاتا تھا، اور ساداتِ قریش فارس وروم والوں سے تعلقات اور موسم سرما وگرما میں بلادِ عربیہ میں اپنی وسیع تجارت اور دولت کے سبب عیش وتنعم کی زندگی گزارتے تھے۔ مکہ والوں کے لیے شرف وعزّت کی ایک بات یہ بھی تھی کہ انہوں نے کسی بھی زمانہ میں خارجی بادشاہوں کے دین ومذہب کو قبول نہیں کیا، نہ کسی کو ٹیکس دیا، اور نہ ہی کسی خارجی بادشاہ نے مکہ پر حکومت کی۔ حمیر، کندہ اور غسّان ولخم کے شاہان واَمراء خانۂ کعبہ کا ہی حج کرتے تھے، اور مکہ کے رہنے والے ہمیشہ امن وچین کی زندگی گزارتے رہے، وہ دوسروں پر جنگی حملے کرتے رہے، ان پر کسی نے حملہ نہیں کیا، دوسروں کو اپنا غلام بناتے رہے، انہیں کسی نے اپنا غلام نہیں بنایا، کبھی کوئی قریشی عورت لونڈی نہیں بنی۔ حجاز کے مشہور شہروں میں ’’طائف‘‘ ہے ،جومکہ کے جنوب مشرق میں 85/ کلو میٹر کی دوری پر باغات اور ہرے بھرے درختوں کے درمیان چھ ہزار فِٹ کی بلندی پر واقع ایک خوبصورت شہر ہے، یہاں زمانۂ جاہلیت میں ثقیف اور ہوازن نام کے