کتاب: الصادق الامین - صفحہ 73
حیرہ عراق میں شاہانِ مناذرہ: چھٹی صدی قبل میلاد مسیح تک اہل فارس عراق پر حکومت کرتے رہے،یہاں تک کہ326 قبل مسیح میں اسکندر مقدونی نے فارس کے بادشاہ دارااوّل کو شکست دی، اور ایرانیوں کا ملک طوائف الملو کی کاشکار ہوگیا، اور 230 ء تک ان کی یہی حالت رہی۔اسی زمانہ میں قحطانیوں نے عراق کے کچھ دیہی علاقہ کے ایک حصہ پر قبضہ کر لیا، اور عدنانیوں نے جزیرہ عرب فرات کے ایک علاقہ پر قبضہ کرلیا۔ ساسانی حکومت کے بانی اَرد شیر نے 226ء میں جزیمہ الوضّاح کو حِیرہ، بادیۂ عراق اور جزیرہ میں رہنے والے قبائل ربیعہ ومضر کا والی بنادیا، تاکہ اس سے شاہانِ روم اور شام میں آباد عربوں کے خلاف مدد لے سکے۔ جزیمہ کے انتقال کے بعد ارد شیر نے حِیرہ کا گورنر اپنے بھانجے عمرو بن عدی لخمی کو بنا دیا۔ اِسے اُن مناذرہ کا زعیم وقائد مانا جاتا تھاجو اہل فارس کے وفادار رہے۔ اُن دنوں حِیرہ بہت ہی اہم تجارتی مرکز تھا، اور مناذرہ بے حد عیش وعشرت کی زندگی گزارتے تھے۔ مناذرہ کا سب سے سنہرا زمانہ منذر بن ماء السماء (514-554) کا زمانہ تھا۔ اُس کے زمانہ میں نجد اور مشرقی جزیرہ کے قبائل حیرہ منتقل ہوگئے تھے۔ منذر کے بعد اس کا بیٹا عمرو بن ہند آیا جس کی نسبت اس کی ماں ’’دَیرہند‘‘ کی طرف ہے، جو حیرہ کی رہنے والی تھی، اور غالباً مسیحی تھی۔ لیکن عمرو اپنے آباء واجداد کی طرح بُت پرست تھا، اور بڑا ہی سرکش اور ظالم تھا۔ عمرو کے بعد حیرہ کا والی قابوس ہوا، پھر منذرچہارم، پھر نعمان سوم بن منذر چہارم جو ایک مسیحی خاندان میں پروان چڑھنے کے سبب مسیحی ہوگیا تھا۔ اسے فارس کے بادشاہ نے قتل کر دیا، اور حیرہ کا گورنر ایاس بن قبیصہ طائی کو بنا دیا، لیکن نعمان کی حمایت وتائید میں (جسے دھوکا دے کر قتل کر دیا گیا تھا)، ایاس مذکور اور فارس کے خلاف قبیلۂ بکر اٹھ کھڑا ہوا، اور یوم ذی قار کی جنگ میں ایاس اور فارسیوں کو بدترین شکست دی۔ یہ واقعہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت کے کچھ ہی دنوں بعد کا ہے۔ وہ علاقہ امن واستقرار سے یونہی محروم رہا، یہاں تک کہ 633ء میں حیرہ پر خالد بن الولید رضی اللہ عنہ نے قبضہ کر لیا۔ بہر کیف، دلائل وقرائن سے پتہ چلتا ہے کہ حیرہ میں عام لوگوں کی زندگی خوشگوار تھی، اور اسلام سے پہلے حیرہ ایک بڑی تجارتی منڈی تھا، اور اس کے اکثر باشندے عرب قبائل سے تعلق رکھتے تھے۔ تھوڑے سے فارسی لوگ بھی تھے۔ اور خیال کیا جاتا ہے کہ وہاں بعض یہودی بھی رہتے تھے۔حیرہ پر فارسی ثقافت کا خاصا اثر تھا جو اس علاقہ میں عام تھا۔ اور وہاں کے عام باشندے بُت پرست تھے، اگرچہ کچھ یہودی، نصرانی، فارسی اور آتش پرست بھی وہاں رہتے تھے ۔[1] حضر موت میں اُمرائے کندہ: یہ اِمارت شمالی نجد میں غسا سنہ اور حِیرہ کی دونوں اِمارتوں کے درمیان تھی، اور ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اِن امارتوں کے امراء کی وفاداری یمن کے لیے تھی، اور حسب ونسب کے اعتبار سے بھی جنوبی جزیرہ کے عربوں سے رشتہ رکھتے تھے۔ کچھ ایسے
[1] ۔ دیکھئے : تاریخ العرب قبل الإسلام، جواد علی: 4/5-117،و العصر الجاہلی، شوقی ضیف :43-47، محاضرات فی تاریخ الإسلام :1/15 وما بعد۔