کتاب: الصادق الامین - صفحہ 72
اُن کے اِن دینی عقائد وافکار سے متعلق اُن کا ایک بڑا اَدبی دینی ذخیرہ تھا جو اسلام آنے کے بعد ختم ہوگیا، جس طرح شمال میں بُت پرستی پر مبنی ادبی ذخیرہ کا اسلام نے خاتمہ کر دیا۔ [1]
شاہانِ ضجاعمہ وغساسنہ دیارِ شام میں:
دوسری صدی عیسوی کے اَوائل میں قُضاعہ کے ذیلی قبائل شام کی حدود تک پہنچ گئے، اور رومانیوں اور باز نطینوں نے ان کا اعتراف اس لیے کر لیا تاکہ وہ بادیہ نشینوں کے حملوں سے ان کے سامنے رُکاوٹ بنے رہیں،نیز اہلِ فارس کے خلاف جنگوں میں ان کی مدد کریں۔ چنانچہ رومانیوں نے اُن قبائل کی بادشاہت کا اعتراف کرلیا جو دوسری صدی عیسوی کے اَواخر تک چلتی رہی۔ اُن کا آخری بادشاہ زیاد بن الہبولہ تھا۔
پھر غساسنہ کا دور آیا، یہ لوگ بھی جنوب کے عربوں میں سے تھے، جو دیگر بہت سے قبائل کے ساتھ شمال کی طرف چلے گئے تھے، اورضجاعمہ پر غلبہ حاصل کرکے بلادِ شام پر قابض ہوگئے تھے، اور اُس علاقہ کے سردار بن گئے تھے۔
رومانیوں اور بازنطینوں نے ان کا اعتراف کر لیا تھا۔ ان کا پہلا بادشاہ ’’جبلہ‘‘ تھا جس نے 497ء میں فلسطین پر قبضہ کرلیا۔ اس کے بعد اس کا بیٹا حارث بادشاہ بنا (528-569ء )، شاہِ روم نے شام کے علاقہ میں رہنے والے عربوں پر اس کی مطلق العنان بادشاہت کا اعتراف کر لیا تھا۔
یہ غسا سنہ چوتھی صدی عیسوی کی ابتدا میں نصرانی ہوگئے تھے۔ اور حارث بن جبلہ نے بلادِ شام اور غساسنہ میں نصرانیت کی نشر واشاعت کے لیے بڑی کوشش کی، اس کے بعد اس کا بیٹا منذر بادشاہ ہوا (569-581ء )، لیکن اس کے اور بازنطینوں کے درمیان اختلاف پیدا ہوگیا، جس کے نتیجہ میں بازنطینی موقع کی تلاش میں رہے، اور ایک دن اس کو پکڑ کو جزیرہ عرب صقلیہ کی طرف جلا وطن کر دیا۔ کچھ عرصہ کے بعد اس کے بیٹے اپنے بھائی نعمان کی قیادت میں باز نطینوں کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے، لیکن شومی قسمت سے584ء میں اس کا انجام بھی اس کے باپ جیسا ہوا۔ اس کے بعد حارثِ اصغر خوب مشہور ہوا جس کی فوجیں قبائلِ نجد کے خلاف خونی جنگیں لڑتی رہیں۔
متأخرین غساسنہ کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ لوگ رقص وسرود اور عیشِ وتنعّم میں ڈوبے ہوئے تھے۔ اُن کے درباروں میں گانے والی رومی عورتیں اور گانے والے عرب مردرقص وسرود کی محفلیں آباد کرتے تھے۔ کہتے ہیں کہ جبلہ بن الأیہم جب شراب نوشی کے لیے بیٹھتا تو اس کے فرش پرآس ویاسمین اور ریحان کے پھول بچھائے جاتے، اور سونے اور چاندی کے برتنوں میں عنبر ومشک وغیرہ کی نوع بہ نوع خوشبوئیں رکھی جاتیں۔
غزوہ یرموک کے زمانہ تک جو 13ھ میں ہوا، شام میں غساسنہ آباد رہے، اُن کے آخری بادشاہ جبلہ بن الأیہم نے جس کا ذکر اوپر آچکا ہے، امیر المؤمنین عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کے عہد میں اسلام قبول کرلیا ۔ [2]
[1] ۔ دیکھئے : العصر الجاہلی :ص/ 26-29۔ تاریخ العرب قبل الإسلام، جواد علی :1/169، 375، 2/8-276، 3/136-214۔
[2] ۔ محاضرات فی تاریخ الأمم الإسلامیہ، اور العصر الجاہلی: ص/40-43۔