کتاب: الصادق الامین - صفحہ 71
اقتصادی حالات خراب ہوگئے، اور اُن پر اہلِ حِمْیَرغالب آگئے جورَیدان کے بادشاہ تھے، وہ رَیدان جس کا نام بعد میں ظفار پڑگیا۔ تقریباً چوبیس (24) قبل مسیح میں حمیریوں کی اقتصادی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی، اور ملک میں ہر سو فساد پھیل گیا، اس لیے کہ اہل روم عدن کی بندرگاہ پر قابض ہوگئے تھے، اور اسے اپنے سفینوں کے خور ونوش کی ضرورت پوری کرنے کا اسٹیشن بنا لیا۔ اِنہی حالات میں چوتھی صدی عیسوی کے نصف میں حبشہ کے بادشاہوں نے ان علاقوں پر قبضہ کر لیا، اور تقریباً بیس سال تک قابض رہے۔ اس کے بعد پھر حمیری حکومت واپس آگئی، لیکن کمزور رہی، پہلے کی طرح ایک طاقتور حکومت نہ بن سکی۔ جزیرہ عرب میں یہودیت ومسیحیت: اُنہی دنوں جزیرہ عرب عرب میں یہودیوں کا اثر کافی بڑھ گیا، اس کی وجہ رومانیوں کا وہ ظلم وجور تھا جو انہوں نے پہلی صدی عیسوی میں یہودیوں کے خلاف روا رکھا تھا۔ مسیحی مذہبی وفود بھی جنوب کے علاقہ میں آنے لگے، یہاں تک کہ پانچویں صدی عیسوی میں پورے نجران شہر نے اس مذہبِ جدید کو قبول کر لیا، اور پورے علاقہ میں یہودیت ومسیحیت کے درمیان سخت نِزاع شروع ہوگیا۔ اہلِ حمیر کے آخری بادشاہ ذونواس نے یہودی مذہب کو قبول کرلیا، اور پوری کوشش کی کہ نجران س مسیحیوں کا خاتمہ کردے۔ سورۃ البروج میں صاحب اُخدود کے نام سے اسی کا قصہ مذکور ہے۔ اسی نے ایک گہرا خندق کھدواکر، اس میں ایک خطرناک آگ جلوائی تھی، اور اس میں ہر اس مردو عورت کو ڈال دیتا تھا جو یہودیت میں داخل ہونے سے انکار کر دیتا تھا۔ آخر کار نجاشی نے باز نطینوں کی شہ پر سن 425ء میں یمن پر حملہ کر دیا، اور اُس پر قابض ہوگیا، اور پچاس سال تک اس پر قابض رہا۔ بالآخر اہل یمن نے اہلِ فارس سے مدد مانگی جو بازنطینوں کے دشمن تھے، چنانچہ انہوں نے وہاں سے حبشہ والوں کو نکال دیا، اور خود اس پر قبضہ کر بیٹھے، اور سن 628ء تک اس پر قابض رہے۔ اُسی سال اہلِ فارس کا گورنرباذان اسلام میں داخل ہوگیا، اور اہلِ جنوب کے عربوں کی تاریخِ قدیم کا خاتمہ ہوگیا۔جنوبی یمن کے یہ عرب قحطانی کہلاتے تھے، اور شمال کے عرب عدنانی کہلاتے تھے۔ قحطانیوں کے بہت سے قبائل غسّان، جذام، عاملہ، کلب اور قضاعہ وغیرہ ہجرت کرکے شام چلے گئے،اور قبیلۂ لخم والے عراق چلے گئے ،اور اوس وخزرج کے لوگ جزیرۂ عرب میں ہی مدینہ چلے گئے جس کا نام یثرب تھا، اور قبیلۂ کِندہ شمال کی طرف چلا گیا، اور قبیلۂ طی اَجا اور سلمیٰ دو پہاڑوں کے درمیان جاکر رہائش پذیر ہوگیا۔ یہ لوگ آسمانی سیّاروں اور ستاروں کی پرستش کرتے تھے، اور ان کی اس بت پرستی نے شمال کے عربوں میں بھی اپنا خوب اثر دکھایا تھا، انہی سے متأثر یہ شمالی عرب کواکب کی پرستش کرنے لگے تھے جس کی بنیاد ثالوث (Trinity)پر تھی، یعنی ’’چاند‘‘ جس کا نام اہل مَعین کے نزدیک ’’وَدّ‘‘ تھا، اور ان کا سب سے بڑا معبود تھا، اور ’’سورج‘‘ جسے انہوں نے چاند کی بیوی بنا دیا تھا، اور اس کا نام ’’اللات‘‘ رکھ دیا تھا۔ اور ان کا خیال تھا کہ ان دونوں کے ملاپ سے ’’عُزّیٰ‘‘ یعنی ’’زہرہ‘‘ پیدا ہوئی تھی۔ اس ثالوث کے علاوہ بھی اُن کے دیگر معبودان تھے جو بعض ستاروں ، چڑیوں یا بعض طبیعی مظاہر کے رمزی نام تھے۔