کتاب: الصادق الامین - صفحہ 70
عرب آبادیاں اور امارتیں
کچھ دیر کے لیے میں عبد المطلب کے بیٹوں، بالخصوص نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے والد عبداللہ، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے نسب کے بارے میں اپنی مزید گفتگو کو مؤخر کرتا ہوں، اور اس کتاب کی ابتدائی پلاننگ کے مطابق جزیرہ عرب کے رہنے والوں، ان کی آبادیوں، اور امراء اور بادشاہوں سے متعلق ضروری باتیں بیان کرنے کے بعد، ان شاء اللہ پھر اصل موضوع کی طرف عود کروں گا۔
اس لیے مندرجہ ذیل صفحات میں زمانۂ جاہلیت کی عرب آبادیوں، امارتوں، ان کی اجتماعی، سیاسی اور دینی زندگی، اسلام سے قبل عربوں کے دین، حنفائے عرب (یعنی وہ لوگ جنہوں نے زمانۂ جاہلیت میں بُت پرستی سے گریز کیا اور دینِ ابراہیمی کی تلاش میں سرگرداں رہے) بلادِ عربیہ کے غیر عرب پڑوسی ممالک اور اُن کے اَدیان ومذاہب، نیز بعثتِ محمدی سے متعلق بشارتوں، اور جزیرہ عرب کے ان اوصاف اور امتیازی باتوں کا ذکر کروں گا جن کے سبب اس جزیرہ کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقام بننے کا شرف حاصل ہوا:
شاہانِ یمن:
قدیم زمانہ سے یمن میں پائے جانے والے قلعوں اور محلوں کے آثار اور میناروں کے باقی ماندہ حصے آج بھی اس بات کی خبر دیتے ہیں کہ جنوبی جزیرہ عرب عرب کے باشندوں نے اپنی ایک تہذیب کو جنم دیا اور اس کو پروان چڑھایا، اور بارش کے زمانہ میں پانی کی تخزین کے لیے سدِّ مأرب ( Dam رضی اللہ عنھم )بنایا۔ اس قدیم زمانہ میں بھی انہوں نے زراعت اور پانی کی تقسیم کا ایک بڑا ہی پائیدار نظام بنایا تھا۔ اور میلادِ مسیح سے دوہزارسال قبل عراق، شام اور مصر سے وسیع پیمانے پر ان کے تجارتی تعلقات قائم تھے۔
میناروں، ڈھانچوں، لاٹوں اور پتھروں پر قدیم سامی زبان میں پائے جانے والے نقوش اور عبارتوں سے پتہ چلتا ہے کہ اُس عہدِ بعید میں سر زمینِ یمن میں پانچ ممالک پائے جاتے تھے؛ وسطِ یمن میں مملکتِ مَعین،جس کا دار السلطنت معین تھا، جنوبی یمن میں مملکتِ سبأ ،جس کا دار السلطنت مأرب تھا، سبأ کے جنوب غرب میں مملکتِ قتبان، جس کا دار السلطنت تِمنَع تھا، قتبان کے جنوب میں مملکتِ اَوسانیہ، اور مملکتِ حضر موت، جس کا مرکزی شہر شبوہ تھا۔
مملکتِ معین کی حکومت بہت قوی تھی، اسی لیے قتبانیوں اور حضرمیوں پر غالب آگئی تھی،اور شمال وجنوب میں تجارتی قافلوں کے راستوں پر اس کا قبضہ ہوگیا تھا۔
اُس کے بعد سبأ والے مَعین کے رہنے والوں پر غالب آگئے، اور پورے جنوبی علاقہ پر اُن کی حکومت ہوگئی، اور شمال میں اہلِ مَعین کے مراکز پر بھی اُن کا قبضہ ہوگیا، اور مأرب شہر کو اپنا مرکز بنالیا۔ تقریباً دو سو ستر (270) قبل مسیح میں اہلِ سبأ کے