کتاب: الصادق الامین - صفحہ 61
تھے، قصُیّ بن کلاب کی کوششوں سے اکٹھے ہوگئے۔ کہا جاتا ہے کہ مکہ کی حقیقی تاریخ کی ابتدا قصَیّ کے زمانہ سے ہی ہوتی ہے، جو پانچویں صدی عیسوی کا تقریباً نصف کا زمانہ تھا۔
قبیلۂ قریش کے لوگوں نے جب مکہ میں اپنا قدم جما لیا، تو مکہ ترقی کرنے لگا، اور اقتصادی، دینی اور اَدبی اعتبار سے مرکزی شہر بن گیا، اور عربوں کی عام رہنمائی کا اسے حق دے دیا گیا۔ قُصَیّ اور ظہورِ اسلام کے درمیان تقریباً ایک سو پچاس سال کا زمانہ ہے۔
قُصَیّ جب بوڑھا ہوا تو اس نے مکہ سے متعلق وہ چھ اہم کام جن کے سبب سے مکہ کو عزّت وشہرت ملتی تھی، اپنے دو بیٹوں عبد الدار اور عبد مناف میں تقسیم کر دیئے، عبد العُزّیٰ کو ان کا اہل نہیں سمجھا۔ عبد الدار کو خانۂ کعبہ کی نگرانی، پاسبانی، دار الندوہ اور عَلَم باندھنے کی ذمہ داری سونپی، اور عبد مناف کو حاجیوں کو پانی پلانا، ان کی میزبانی کرنا اور فوج کی قیادت دی۔[1]
عبد مناف،اُس کا بیٹا ہاشم اور اُس کے بیٹے:
جیسا کہ معلوم ہوا، عبد مناف، قُصَیّ کے تین بیٹوں میں سے ایک تھا، اور اپنے باپ کی زندگی میں ہی عزت وشرف والا بن چکا تھا، اور قریش نے اس کی سرداری کو تسلیم کر لیا تھا، اور اپنی عزت وشرف کے سبب قریشیوں کے شجرئہ نسب کاایک اہم نام بن چکا تھا۔ وہ قریشیوں کو اللہ سے ڈرنے اور صدق وامانت کی نصیحت کرتا تھا۔
اس کے چھ بیٹے ہوئے: مُطّلب، ہاشم، عبد شمس، اس کی بیوی عاتکہ بنت مُرّۃ بن ہلال کے بطن سے پیدا ہوئے، اور نوفل، اَبو عمرو اور اَبو عبیدہ اس کی دوسری بیوی واقد بنت عامر بن عبد کے بطن سے پیدا ہوئے۔
امام شافعی رحمہ اللہ کا نسب مطلب سے ملتا ہے۔ عبد شمس کا نام امیّہ تھا، اسی لیے اس کی اولاد بنو اُمیّہ کے نام سے جانی گئی، اور نوفل کی اولاد نوفلی کہلائی۔ ابو عمرو اور ابو عبیدہ کے حالات سے تاریخ بالکل خاموش ہے۔
ہاشم کا نام عمرو تھا، اس نے اپنے بھائیوں میں سب سے زیادہ شہرت پائی، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دادا عبد المطلب اِسی ہاشم کے بیٹے تھے۔عبد المطلب نے اپنے باپ کی طرح جُود وسخا، معاملات میں اعتدال پسندی، اعلیٰ دانش مندی، ظلم وتکبر سے دُوری اورشجاعت وجوانمردی کے سبب خوب شہرت پائی،اگرچہ وہ بھی دورِ جاہلیت کے اہل عرب کی طرح مشرکانہ اور جاہلی عقائد اور بُرے عادات واطوار سے پاک نہیں تھا۔
ہاشم پورے زمانۂ حج میں حاجیوں کو کھانا کھلاتا تھا، اسی لیے عربوں نے اسے ’’ہاشم‘‘ کا لقب دے دیا، یعنی وہ مردِ جُود وسخا جوپورے زمانۂ حج میں روٹیاں توڑ توڑ کر ملیدے بناتا ہے اور تمام حاجیوں کو کھلاتا ہے۔
ہاشم مالدار اور کریم النفس تھا، حج کے زمانہ میں اپنی قوم کو مخاطب کرکے کہتا: اے قریش کے لوگو، تم لوگ اللہ کے پڑوسی اور اس کے گھر والے ہو، اور اس موسم میں تمہارے پاس اللہ کے زائرین آتے ہیں، جو اُس کے گھر کی حُرمت کی تعظیم کرتے ہیں، یہ لوگ اللہ کے مہمان ہیں، اور مہمانوں میں سب سے زیادہ تکریم کے مستحق اللہ کے مہمان اوراُس کے زائرین ہیں۔ یہ لوگ اپنے اپنے گھروں اور علاقوں سے غبار آلوداور بال بکھرے ہوئے پریشان حال آتے ہیں، اِن کی اونٹنیاں سوکھ کر لکڑیوں
[1] ۔ مکہ ، فی عصرما قبل الإسلام : ص/43-48۔