کتاب: الصادق الامین - صفحہ 58
اللہ تعالیٰ نے اُن کی دعا قبول فرمالی، اور اُن کی تمنائیں پوری ہوئیں، چنانچہ اللہ نے اُن کی اولاد میں خوب برکت عطا فرمائی،خوب افزائش ِنسل ہوئی، اور اُن میں خوب کثرت ہوئی، اور عربوں نے ان کی خاندانی رفعت وبلندی، سیادت وقیادت، اخلاق کریمانہ، اور ان کی شجاعت وجوانمردی کا اعتراف کیا، اور ابراہیم علیہ السلام کی دعوتِ توحید ان کی زندگی میں ہی سارے عالم میں پھیل گئی، اور اُن کے بعد اسماعیل علیہ السلام کی اولاد بھی خوب پھلی پھولی۔ اور ان کی اولاد میں سب سے بلند مقام ومرتبہ والے، اور سب سے زیادہ خاص ذکر وشہرت والے خاتم النّبیین محمد بن عبداللہ بن عبدالمطلب ہاشمی صلی اللہ علیہ وسلم ہوئے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے، آپ نے فرمایا:’’ میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا ثمرہ اور اپنے بھائی عیسیٰ کے ذریعہ دی گئی خوشخبری ہوں۔‘‘
بیت اللہ کی تعمیر مکمل کرنے کے بعد ابراہیم علیہ السلام بلادِ شام واپس چلے گئے، اور دعوت الی اللہ کے کاموں میں لگ گئے، اور وہیں رہے، یہاں تک کہ اللہ نے انہیں اپنے پاس بلالیا۔ اُس وقت اُن کی عمر ایک سو پچھتّر(175) سال تھی۔ بعض کا خیال ہے کہ اُس وقت وہ ایک سو نوّے(190) سال کے تھے۔ اُن کو سر زمینِ کنعان کی حبرون نامی بستی میں اُسی غار میں دفن کیا گیا جس میں اُن سے پہلے ’’سارہ‘‘ دفن کی گئی تھیں۔ اُن کے دفن کا کام ان کے دونوں بیٹوں اسماعیل واسحاق علیہما السلام نے انجام دیا۔[1]
ابراہیم علیہ السلام نے لوگوں میں حج کااعلان کیا:
اللہ تعالیٰ نے اپنے بندے ابراہیم علیہ السلام کو (جب وہ تعمیرِ خانۂ کعبہ سے فارغ ہوگئے) حکم دیا کہ وہ لوگوں میں حج کا اعلان کریں، جیسا کہ سورہ حج آیات(26-29) میں آیا ہے:
((وَإِذْ بَوَّأْنَا لِإِبْرَاهِيمَ مَكَانَ الْبَيْتِ أَن لَّا تُشْرِكْ بِي شَيْئًا وَطَهِّرْ بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْقَائِمِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ (26) وَأَذِّن فِي النَّاسِ بِالْحَجِّ يَأْتُوكَ رِجَالًا وَعَلَىٰ كُلِّ ضَامِرٍ يَأْتِينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَمِيقٍ (27) لِّيَشْهَدُوا مَنَافِعَ لَهُمْ وَيَذْكُرُوا اسْمَ اللَّهِ فِي أَيَّامٍ مَّعْلُومَاتٍ عَلَىٰ مَا رَزَقَهُم مِّن بَهِيمَةِ الْأَنْعَامِ ۖ فَكُلُوا مِنْهَا وَأَطْعِمُوا الْبَائِسَ الْفَقِيرَ (28) ثُمَّ لْيَقْضُوا تَفَثَهُمْ وَلْيُوفُوا نُذُورَهُمْ وَلْيَطَّوَّفُوا بِالْبَيْتِ الْعَتِيقِ))
’’اور جب ہم نے ابراہیم( علیہ السلام ) کے لیے خانۂ کعبہ کی جگہ مقرر کردی، اور ان سے کہا کہ آپ کسی چیز کو بھی میرا شریک نہ ٹھہرایے ،اور میرے گھر کو طواف کرنے والوں ، قیام کرنے والوں، اور رکوع وسجدہ کرنے والوں کے لیے( شرک وبُت پرستی سے) پاک رکھیے، اور آپ لوگوں میں حج کا اعلان کردیجیے، تاکہ وہ آپ کے پاس پیدل چل کر، اور دُبلی اونٹنیوں پر سوار ہوکر دور دراز علاقوں سے آئیں ، تاکہ وہ اپنے لیے دینی اور دنیاوی فوائد حاصل کریں، اورچند متعین دنوں میں ، ان چوپایوں کواللہ کے نام سے ذبح کریں جو اللہ نے بطور روزی انہیں دیاہے۔پس تم لوگ اس کا گوشت کھاؤ، اور بھوکے فقیر کو بھی کھلاؤ۔پھر انہیں چاہیے کہ اپنے جسم کا میل صاف کریں، اور اپنی نذریں پوری کریں ، اور بیتِ عتیق یعنی خانۂ کعبہ کاطواف کریں۔‘‘
چنانچہ ابراہیم علیہ السلام نے آواز لگائی، اور ان کی آواز تمام لوگوں نے سنی، اور اُس وقت سے چپہ چپہ سے لوگ حج کے لیے آنے لگے، اور آج تک یہ سلسلہ جاری ہے، اور قیامت تک بیتِ حرام کی طرف حج کے لیے آنے والے قافلوں کا سلسلہ جاری
[1] ۔ قصص الأنبیائ، ابن کثیر :265۔