کتاب: الصادق الامین - صفحہ 54
انہی غیر مذکور حقائق میں سے اسماعیل علیہ السلام ذبیح اللہ کا ذکر ہے، حالانکہ سورۃالصافّات آیات(103-107) میں اللہ تعالیٰ نے اس کا ذکر فرمایا ہے۔ اور آیتوں کا سیاق دلالت کرتا ہے کہ ابراہیم علیہ السلام نے جب شام میں یہ خواب دیکھا تو وادیٔ مکہ میں تشریف لائے، اور اپنا خواب اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام سے بیان کیا اور جو کچھ ہونا تھا ہوا، اُس وقت اسحاق علیہ السلام پیدا نہیں ہوئے تھے، اسی لیے تو اللہ تعالیٰ نے پہلے ’’ذبیح‘‘ کا واقعہ بیان کیا، اس کے بعد فرمایا: ((وَبَشَّرْنَاهُ بِإِسْحَاقَ نَبِيًّا مِّنَ الصَّالِحِينَ)) [ الصفات:112] ’’اور ہم نے انہیں اسحاق کی خوشخبری دی جو نبی اور نیک لوگوں میں سے ہوں گے۔‘‘ گویا یہ سیاق اور یہ آیتِ کریمہ اس بات پر نصّ قطعی ہے کہ ذبیح اسماعیل علیہ السلام ہیں، اور یہ کہ اسحاق علیہ السلام کو لمبی عمر ملے گی یہاں تک کہ وہ نبی بنائے جائیں گے۔ ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی ہے کہ اُس مینڈھے کا سر جو اسماعیل علیہ السلام کے بدلے ذبح کیا گیا تھا، خانۂ کعبہ کے میزاب (پرنالہ)کے ساتھ لٹکا دیا گیا تھا جو خشک ہوگیا تھا۔ نیز اس بات کی کوئی دلیل نہیں کہ اسحاق علیہ السلام بچپن میں مکہ آئے تھے، بلکہ اسماعیل علیہ السلام ہی مکہ میں رہے، اور وہیں ابراہیم علیہ السلام نے اللہ کے حکم کے مطابق انہیں ذبح کرنے کی کوشش کی، اور اللہ تعالیٰ نے ان کے بدلے قربانی کا ایک بڑا جانور بھیج دیا۔ مقصود یہ ہے کہ اسماعیل علیہ السلام جب تیرہ سال کے ہوئے تو ابراہیم علیہ السلام مکہ آئے،اوریہ اُن کے پانچ اَسفارِ مکہ میں سے دوسرا تھا۔ اور پہلے، تیسرے، چوتھے اور پانچویں اَسفار کا ذکر امام بخاری رحمہ اللہ کی ابن عباس رضی اللہ عنھما سے مروی روایت میں آیا ہے۔ بنابریں ابراہیم علیہ السلام کے پانچوں اَسفارِ مکہ کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے:[1] پہلا سفر: اِس سفر کی تفصیل ابھی کچھ سطور پہلے ’’مکہ میں ابراہیم علیہ السلام کی آمد‘‘ کے عنوان کے تحت گزر چکی ہے، جب ابراہیم علیہ السلام اللہ کے حکم سے ہاجراور اپنے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو لے کر مکہ کی وادیٔ غیر ذی زرع میں انہیں بسانے کے لیے آئے، اور انہیں وہاں چھوڑ کر شام واپس چلے گئے، تاکہ لوگوں کو توحیدِ باری تعالیٰ اور صرف اللہ کی بندگی کی دعوت دینے میں مشغول ہو جائیں۔ دوسرا سفر: جب اللہ تعالیٰ نے انہیں خواب میں دکھلایا کہ وہ اپنے اکلوتے بیٹے اسماعیل علیہ السلام کو ذبح کر رہے ہیں، جن کی عمر اُس وقت تیرہ سال تھی، چنانچہ انہوں نے اپنے رب کے اس حکم پر لبیک کہتے ہوئے، سرِ تسلیم خم کیا، اور اس کی طاعت وبندگی کو بجا لانے میں جلدی کرتے ہوئے، بیٹے سے اپنا خواب بیان کیا،بیٹے نے بھی اللہ کے حکم پر لبیک کہتے ہوئے، سرِ تسلیم خم کر دیا، اور کہا: ((يَا أَبَتِ افْعَلْ مَا تُؤْمَرُ ۖ سَتَجِدُنِي إِن شَاءَ اللَّـهُ مِنَ الصَّابِرِينَ)) [الصّٰفٰت:102] ’’ ابا جان! آپ کو جو حکم دیا گیاہے وہ کر گزریے، اللہ نے چاہا تو آپ مجھے صبر کرنے والا پائیں گے۔‘‘ جب ابراہیم نے اسماعیل علیہما السلام کو پیشانی کے بل لٹایا، اور بسم اللہ اللہ اکبر کہا، اور بیٹے نے موت کو گلے لگانے کے لیے کلمۂ شہادت پڑھ لیا، اور ابراہیم علیہ السلام نے ان کے گلے پر چُھری پھیری، تو چُھری کچھ بھی کاٹ نہ سکی، اور ابراہیم علیہ السلام کو ان
[1] ۔ دیکھئے : قصص النبیین، ابن کثیر: ص/220 اور اس کے بعد، اور صحیح بخاری: کتاب الأنبیاء ،حدیث( 3364)،(3365)۔