کتاب: الصادق الامین - صفحہ 52
اولاد تھی۔ تاریخ سے یہ ثابت ہے کہ عربِ مستعربہ کا پہلا وطن مکہ تھا، اس لیے کہ اُن کے جدّ اعلیٰ ابراہیم علیہ السلام پہلے آدمی تھے جو وہاں پہنچے تھے، اور وہ عربی نہیں تھے، اپنے شہر ’’اَر‘‘ سے ہجرت کرکے (جو دریائے فرات کے شمال مغرب کنارے پر واقع تھا)، دیار مصر سے ہوتے ہوئے حاران یا حرّان آگئے۔ راستہ میں شاہِ مصر کو توحید کی دعوت دی، اس وقت ان کی عمر پچیس سال تھی، اور اُن کے ساتھ اُن کی بیوی سارہ تھیں جو ان کے چچا ہاران کی بیٹی تھیں، اور ان کے چچا زاد بھائی لوط علیہ السلام تھے۔ شاہ مصر نے سارہ کو اپنے لیے روک لینا چاہا، لیکن اللہ تعالیٰ نے اُسے ایسا سخت عذاب دیا کہ مارے ڈر کے اس نے انہیں چھوڑ دیا۔ اور ان کی کرامات کو دیکھ کر مزید یہ نیکی کی کہ اپنی بیٹی’’ہاجر‘‘ کو ان کی خدمت کے لیے انہیں دے دیا۔ بعد میں سارہ نے انہیں ابراہیم علیہ السلام کو دے دیا، ابراہیم علیہ السلام نے اُن سے شادی کر لی، اور اُن ہی کے بطن سے اسماعیل علیہ السلام پیدا ہوئے۔ سارہ کو جب معلوم ہوا کہ ہاجر حمل سے ہیں، تو اُن کی محبت دشمنی میں بدل گئی، اور ابراہیم علیہ السلام سے کہا کہ وہ انہیں اور ہاجر کو الگ الگ رکھیں۔ چنانچہ ابراہیم علیہ السلام اپنے بیٹے اور بیوی کو لے کر مکہ گئے، اور اللہ کے حکم کے مطابق انہیں ’’بیتِ حرام‘‘ کے پاس ٹھہرایا جو اُس وقت ٹیلہ کی مانند ایک اونچی جگہ تھی۔ اسی کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے سورہ ابراہیم آیت(37) میں فرمایا ہے: ((رَّبَّنَا إِنِّي أَسْكَنتُ مِن ذُرِّيَّتِي بِوَادٍ غَيْرِ ذِي زَرْعٍ عِندَ بَيْتِكَ الْمُحَرَّمِ رَبَّنَا لِيُقِيمُوا الصَّلَاةَ)) ’’اے ہمارے رب! میں نے اپنی بعض اولاد کو تیرے بیتِ حرام کے پاس ایک وادی میں بسایا ہے جہاں کوئی کھیتی نہیں ہے، اے ہمارے رب ! میں نے ایسا اس لیے کیا ہے تاکہ وہ نماز قائم کریں۔‘‘ ابراہیم علیہ السلام انہیں وہیں چھوڑ کر واپس چل پڑے، اور اُن کے لیے ایک تھیلی میں کچھ کھانا اور پانی کا ایک مشکیزہ رکھ دیا۔ ہاجر نے ان کی طرف دیکھ کر اُن سے پوچھا: آپ ہمیں کس کے حوالے کیے جارہے ہیں؟ کیا اللہ تعالیٰ نے آپ کو اس کا حکم دیا ہے؟ انہوں نے کہا: ہاں۔ تو ہاجر نے کہا: میں اللہ تعالیٰ کے فیصلہ پر راضی ہوں۔[1] اس کے بعدابراہیم دعوتِ توحید کی نشر واشاعت کے لیے شام واپس چلے گئے۔ ہاجر اور ان کے بیٹے اسماعیل علیہ السلام مکہ میں: ہاجر اپنے دودھ پیتے بچہ کے ساتھ وادی میں رہ گئیں، ان کا گذران تھیلی میں موجود کھانے اور مشکیزہ کے پانی پر ہونے لگا۔ پانی کو ایک دن ختم ہونا تھا، ہوگیا، سو اب ہاجر اور ان کے دودھ پیتے بچے اسماعیل کو پیاس لگی، تو چاروں طرف پانی تلاش کرنے لگیں، اور حیران وپریشان ہوگئیں، اپنے بچہ کو پیاس کی شدت سے تڑپتا دیکھ کر ان کا دل پسیجا جا رہا تھا۔ اسی پریشانی میں صفا پہاڑی پر چڑھ کر دائیں بائیں دیکھنے لگیں، لیکن انہیں کہیں پانی نظر آیا، نہ ہی کوئی انسان۔ وہاں سے اتریں اور مروہ پہاڑی پر چڑھیں، اور دائیں بائیں دیکھتی رہیں، لیکن کچھ نہ دیکھا، تو اُتر کر صفا کی طرف آئیں، اسی طرح انتہائے پریشانی میں دونوں پہاڑوں کے درمیان دوڑتی رہیں، یہاں تک کہ سات بار دوڑ لگاتی رہیں، اور ہر بار بچے کے پاس جاکر دیکھتی رہیں کہ ابھی زندہ ہے یا اللہ کو پیارا ہوگیا۔ آخری بار اچانک دیکھتی ہیں کہ بچہ کے دونوں قدموں کی رگڑ کے اثر سے پانی کا ایک چشمہ ابل پڑا ہے، دوڑتی ہوئی وہاں پہنچیں، اور پانی کو مٹی اور پتھر سے گھیرنے لگیں، تاکہ زمین پر پھیل کر خشک نہ ہوجائے۔ اس طرح زمزم کا
[1] ۔ صحیح البخاری: کتاب الأنبیاء حدیث 3364،3365۔