کتاب: الصادق الامین - صفحہ 51
تھی، بلکہ سُریانی تھی، جو عراق کے علاقہ بابل میں رہنے والے کلدانیوں کی زبان تھی، اور جب اپنے علاقہ سے ہجرت کرکے شام گئے، تو وہاں کے باشندوں یعنی کنعانیوں کی زبان سیکھ لی، عربی زبان میں انہوں نے بات نہیں کی۔ اسماعیل علیہ السلام نے قبیلۂ جُرہم والوں سے عربی سیکھی، جو یمن کا قحطانی قبیلہ تھا، اور امّ اسماعیل ہاجر کی اجازت سے مکہ میں سکونت پذیر ہوگیا تھا۔ اسماعیل علیہ السلام بیان واَدب اور فصاحت وبلاغت میں جُرہم والوں پر سبقت لے گئے، اور جُرہم کے سردار مضاض بن عمرو کی بیٹی سے شادی کر لی۔ اس بیوی سے اللہ تعالیٰ نے اسماعیل علیہ السلام کو بارہ لڑکے عطا کیے۔ اُنہی میں سے ثابت وقیدار تھے۔ اس طرح اسماعیل علیہ السلام اور اُن کی اولاد کی زبان عربی ہوگئی اور انہیں ’’عرب مستعربہ‘‘ کہا جانے لگا۔ اس لیے کہ ان لوگوں کے دادا ابراہیم علیہ السلام عربی نہیں تھے، انہوں نے عربوں سے عربی سیکھی، ان کی لڑکیوں سے شادیاں کیں، اُن میں مل گئے، اور پورے طور پر اُن کے ساتھ گُھل مل گئے۔ اور اُن کی نسبت’’عدنان‘‘ کی طرف کی جانے لگی جو اسماعیل علیہ السلام کی اولاد کی اَولاد میں سے تھا۔ اور چونکہ اسماعیل علیہ السلام بھی اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کی طرح عربی نہیں تھے، اس لیے تمام عدنانیوں کو ’’عرب مستعربہ‘‘کہا جانے لگا۔ عدنان کے بعد تمام عدنانی قبائل میں خوب کثرت ہوتی گئی، اور بلاد عربیہ کے مختلف حصوں میں پھیلتے چلے گئے۔ عدنان کے بیٹوں میں سب سے زیادہ مشہور ’’عکّ اور معدّ‘‘ ہوئے، عکّ یمن کی طرف چلا گیا، اور وہاں اپنے سُسرالی اَشعریوں کے ساتھ رہنے لگا۔’’معدّ‘‘ مکہ میں ہی رہا، اس کے چار بیٹے ہوئے: نزار، قُضاعہ، قُنص اور ایاد۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب’’نزار‘‘ تک پہنچتا ہے۔ اس اجمال کی تفصیل مندرجہ ذیل ہے: مکہ اور اس کے اَولین باشندے: مؤرخین نے لفظ ’’مکہ‘‘ کی اصل کے بارے میں اختلاف کیا ہے۔ مکہ جن تمام ناموں سے جانا گیا، اُن سب سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہ اپنے ابتدائے عہد سے ہی ایک دینی مقام تھا جس کی بنیاد ابراہیم علیہ السلام نے ڈالی تھی۔جواد علی نے لکھا ہے کہ بطلیموس کے جغرافیہ میں مکہ کا ذکر ( علیہما السلام A رضی اللہ عنھا ORA رضی اللہ عنہ A )کے تحت آیا ہے، جس کا معنی مقدّس یا حرم ہے ۔[1] اس سے پتہ چلتا ہے کہ مکہ اپنی ابتداء سے ہی ایک دینی مقام تھا، اور بعثتِ نبوی علی صاحبہا الصلوٰۃ والسلام سے بہت زمانہ قبل عبادت کا ایک مرکز تھا۔ اور ایسا لگتا ہے کہ اس نام کا اللہ کے ’’بیتِ عتیق‘‘ سے گہرا ربط وتعلق رہا ہے، اور زمانۂ جاہلیت میں دینی مرکز کی حیثیت سے اس کی شہرت میں اس کا بڑا دخل تھا۔ مکہ ایک وادی کے نشیب میں واقع ہے جو ’’وادیٔ بطنِ مکہ‘‘ سے معروف ہے، اور یمن اور شام کے درمیان قافلوں کی گزر گاہ کے بیچ میں، سراۃ نامی پہاڑ کی وادیوں میں سے ایک وادی میں ہے، اس کے چہار جانب بے آب وگیاہ پہاڑ ہیں، اسی لیے قرآنِ کریم نے اس کا وصف بیان کرتے ہوئے اسے ’’وادیٔ غیر ذی زرع‘‘ کہا ہے۔ مکہ میں ابراہیم علیہ السلام کی آمد: مؤرخین کا خیال ہے کہ مکہ اور حجاز کے قدیم ترین حُکّام عمالقہ تھے، اُن کے بعد یمن سے آنے والے قبیلۂ جُرہم قحطانی کی
[1] ۔ تاریخ العرب قبل الإسلام :4/188۔