کتاب: الصادق الامین - صفحہ 451
مسلمانوں کو دھوکا دے کر ان پر حملہ کرسکیں، لیکن مسلمانوں کی فوج ایک لمحہ کے لیے بھی غافل نہیں تھی، مسلمان جب بھی دشمن کے کسی دستہ کو خندق کے قریب ہوتے دیکھتے تو ان پر تیروں کی بارش شروع کردیتے، تو وہ گھبرا کر پیچھے ہٹ جاتے۔
عمرو بن عبد ودّ کا قتل:
کفارِ قریش، یہود اور عرب قبائل کا حصار طول پکڑتا گیا، لیکن کافروں کے لیے وہ کسی طرح بھی نتیجہ خیز ثابت نہیں ہوا، اس لیے قریش کے بعض جوانوں کا کبروغرور بھڑک اُٹھا، اور طیش میں آکر صف سے نکل گئے اور خندق کی ایک تنگ جگہ سے اس میں داخل ہوگئے ان میں پیش پیش عکرمہ بن ابو جہل، عمر بن عبدودا ور ضرار بن خطاب وغیرہ تھے۔ یہ دیکھ کر مسلمانوں نے خطرہ کو تیزی کے ساتھ آگے بڑھتے محسوس کرلیا، اور علی بن ابو طالب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں چند گھوڑ سواروں نے خندق کی اس تنہا تنگ جگہ کو بند کرنا چاہا، اور کافر گھوڑ سواروں کا مقابلہ کرنے کے لیے سامنے آئے، عمرو بن عبد وُدّ کے بارے میں خیال کیا جاتا تھا کہ وہ تنہا ایک ہزار آدمیوں کے برابر ہے، یہ شخص آگے بڑھا اور آواز لگائی کہ کون میرا مقابلہ کرے گا؟ تو علی بن ابو طالب کھڑے ہوئے، اور کہا: اے اللہ کے رسول ! میں اس کا مقابلہ کروں گا، آپ نے فرمایا: یہ عمرو بن عبد وُدّ ہے، بیٹھ جاؤ، عمرو بن عبدوُدّ نے دوبارہ پکارا، کیا تم میں سے کوئی آدمی مقابلہ کے لیے آگے نہیں آئے گا؟ کہاں ہے تمہاری وہ جنت جس کے بارے میں تمہارا خیال ہے کہ تم میں سے جو قتل کیا جائے گا اس میں داخل ہوگا، کیا تم لوگ کسی آدمی کوبھی میرے مقابلہ کے لیے آگے نہیں بڑھاؤگے؟ علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ دوبارہ کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس کا مقابلہ کرنے دیجیے، عمرو بن وُدّ نے تیسری مرتبہ کچھ اشعار پڑھے جن میں وہ مسلمان گھوڑ سواروں کو اپنے مقابلے کی دعوت دے رہا تھا، تو علی رضی اللہ عنہ پھر کھڑے ہوئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! مجھے اس کا مقابلہ کرنے دیجیے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ عمرو بن وُدّ ہے، علی نے کہا: اگرچہ یہ عمرو ہے، تب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اجازت دے دی، علی رضی اللہ عنہ اس کی طرف بڑھے، اور اس کے قریب آگئے، تو ان سے عمرو نے پوچھا: تم کون ہو؟علی نے کہا: میں علی رضی اللہ عنہ ہوں، عمرو نے کہا: عبدمناف کے بیٹے ہو؟ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: میں علی بن ابو طالب ہوں، عمرو نے کہا: اے بھتیجے! تمہارے چچوں میں تم سے زیادہ عمر والے ہیں، میں تمہارا خون بہانا اچھا نہیں سمجھتا، علی رضی اللہ عنہ نے کہا: لیکن میں اللہ کی قسم! تمہارا خون بہانا اچھا سمجھتا ہوں، اس پر عمرو ناراض ہوگیا، اور گھوڑے سے اُتر کر تلوار کھینچ لی جیسے کہ وہ آگ کا ایک شعلہ ہو، پھر علی رضی اللہ عنہ کی طرف غصہ کی حالت میں بڑھا، اور علی رضی اللہ عنہ اپنی ڈھال پر اس کا وار روکنے کے لیے تیار ہوگئے، عمرو نے ان کی ڈھال پر ایسی ضرب لگائی کہ اسے کاٹ ڈالا، اور اس میں تلوار پیوست ہوگئی، اور علی رضی اللہ عنہ کے سر کو بھی زخمی کردیا، سیّدنا علی رضی اللہ عنہ نے اس کی گردن اور مونڈھے کے درمیان ایسی کاری ضرب لگائی کہ وہ گر پڑا، اور فضا غبار آلود ہوگئی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تکبیر کی آواز سنی، اور دشمنوں کے گھوڑے شکست کھاکر بھاگ پڑے، ان میں سے بہت سارے خندق میں گر پڑے، اور ان پر ایسا رعب طاری ہوا کہ عکرمہ بھاگتے ہوئے اپنا نیزہ چھوڑ گیا۔ مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس دس ہزار دے کر کسی کو عمرو بن عبدودّ کی لاش خریدنے کے لیے بھیجا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: تم لوگ اسے اٹھاکر لے جاؤ، ہم مُردوں کی قیمت نہیں کھاتے۔ [1]
[1] ۔ سیرۃ ابن ہشام: 2/ 2 24، 2 25، طبقات ابن سعد: 2/ 68، صحیح السیرۃ النبویۃ، ابراہیم: ص/ 361، 36 2،الحیاۃ العسکریۃ : ص/ 166، 168۔