کتاب: الصادق الامین - صفحہ 450
کردیے،اور ایسا کرنا اللہ کے لیے بڑا آسان تھا،یہ لوگ یہی سمجھ رہے ہیں کہ دشمن کی فوجیں اب تک واپس نہیں گئی ہیں، اور اگر وہ فوجیں دوبارہ مُڑ کر آجائیں تو ان کی خواہش ہوگی کہ وہ بادیہ میں چلے جائیں اور وہاں سے تمہارے احوال معلوم کرتے رہیں، اور اگر یہ لوگ تمہارے درمیان ہوتے تو برائے نام ہی جنگ میں شریک ہوتے۔ ‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے مومنین کی حالت اور خندق کھودتے وقت اور دشمنوں سے مڈبھیڑ کے وقت منافقین کے کردار کو آشکارا کیا ہے اور یہ باتیں ان کے بارے میں تعجب خیز نہیں تھیں، اس لیے کہ وہ منافقین تھے اور ایمان واسلام سے یکسر عاری ومحروم تھے، اسی لیے غزوہ کی پوری مدت میں ان کی جانیں مصیبت میں رہیں اور بزدلی، شکست خوردگی اور اللہ پر عدم اعتماد کا شعور ان پر غالب رہا، بلکہ وہ پوری کوشش کرتے رہے کہ جھوٹی خبریں پھیلاکر مسلمانوں کو خوف زدہ اور ان کی ہمت شکنی کریں، اور وہ ذہنی طور پر ہر وقت اپنی جانیں بچانے کے لیے میدانِ کارزار سے بھاگنے کے لیے تیار رہتے تھے، اور ہر زمانے اور ہرجگہ منافقین کا ہمیشہ یہی حال رہا ہے، لیکن مخلص مسلمانوں نے منافقین کے اس مجرمانہ کردار کی پروا نہیں کی، اور پوری تند ہی سے خندق کھودتے رہے، اور جنگی اور دفاعی کارروائیوں کی تکمیل میں لگے رہے، تاکہ مدینہ اور وہاں رہنے والے مسلمان بچوں، بوڑھوں اور عورتوں کی حفاظت کرسکیں۔
اسلامی فوج:
دفاعی پلان مکمل ہونے کے بعد نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں کی تین ہزار پر مشتمل فوج کو غایتِ حکمت ودانائی کے ساتھ مرتب کیا، اُن کی پیٹھوں کو جبل سلع کی طرف کردیا، اور ان کے چہروں کو اس خندق کی طرف جو ان کے اور مشرکین کے درمیان حدِّ فاصل تھا، مسلمانوں نے خندق کے کنارے واقع ریت کے اونچے ٹیلوں کے پیچھے صف بندی کی، تاکہ وہاں سے مشرکین کو اپنے تیروں کا نشانہ بناسکیں۔
دشمنانِ اسلام کا لشکر:
اس سے پہلے ذکر کیا گیا ہے کہ کافروں کے لشکرکی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی، اور قریش کے لوگ سیلاب کا پانی جمع ہونے کی جگہ خیمہ زن ہوئے تھے، اور غطفان اور اہلِ نجد کے لوگ احد پہاڑی کے کنارے اُترے تھے۔
قریش کے لوگ سمجھتے تھے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے صحابہ رضی اللہ عنھم سے ان کی مڈبھیڑ جبلِ احد کے پاس ہوگی، لیکن انہوں نے وہاں کسی کو نہیں پایا تو مدینہ کی طرف بڑھتے گئے، اور اچانک انہوں نے اپنے سامنے خندق کو پایا تو وہ اور تمام مشرکینِ عرب بہت زیادہ حیران وپریشان ہوئے، اس لیے کہ انہیں پہلے سے اس طرح کی کسی دفاعی تدبیر کا کوئی علم نہیں تھا، اور کہنے لگے: اللہ کی قسم! یہ ایک ایسی جنگی چال ہے جس سے عرب نابلد ہیں۔
چنانچہ جب وہ سب خندق کے قریب پہنچے تو مسلمانوں نے ان پر تیروں کی بوچھاڑ شروع کردی، تو وہ تیزی کے ساتھ پیچھے ہٹ گئے، اور اتنی مسافت پر اپنی صفیں بنائیں جہاں مسلمانوں کے تیر نہیں پہنچ سکتے تھے۔
اس طرح دونوں فوجیں کئی دن تک ایک دوسرے کے سامنے کھڑی انتظار کرتی رہیں، اور دشمنوں کے دستے رات دن خندق کے آس پاس گھومتے رہے، کہ شاید انہیں کہیں سے کوئی ایسا راستہ مل جائے، جس کے ذریعہ وہ خندق پارکرسکیں، اور