کتاب: الصادق الامین - صفحہ 45
جزیرہ عرب محلِ وقوع، خصوصیات محلِ وقوع: یاقوت حموی نے اپنی کتاب’’معجم البلدان‘‘ میں ابومنذر ہشام بن محمد بن السائب الکلبی کی سند کے ذریعے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ بلادِ عربیہ کو ’’جزیرہ‘‘ اس لیے کہا گیا ہے کہ وہ اپنے تمام اطراف وجوانب سے دریاؤں اور سمندروں سے اس طرح گھرا ہوا ہے کہ وہ بحری جزیروں میں سے ایک جزیرہ کی مانند بن گیا ہے۔ چنانچہ بلادِ عربیہ مشرق ومغرب اور جنوب تین جہتوں سے سمندروں سے گھرا ہوا ہے، اور شمال مشرق سے شمال تک اسے دریائے فرات بحرِ اَبیض متوسط کے قریب تک گھیرے ہوئے ہے۔ اس طرح عربوں کے نزدیک ان کے جزیرہ کے حدود اربعہ مندرجہ ذیل ہیں: جنوب میں بحر عُمان، پھر خلیج عربی، محیط ہندی اور خلیج عدن، مغرب میں بحر احمر (بحر قلزم) پھر صحرائے سیناء اور بحر ابیض، اور شام کے شمال مغرب میں شہر قنسرین تک دریائے فرات۔ جزیرہ عرب اپنے اسی طبعیاتی اور جغرافیائی محلِ وقوع کی وجہ سے ماضی قریب وبعید میں اپنی قوموں کے لیے ایک ایسا ناقابل تسخیر قلعہ بنا رہا ہے جس پر غیر عربوں کا کبھی بھی قبضہ نہ ہوسکا، حالانکہ بعض اَدوار میں یہ عرب قومیں دو عظیم ترین بادشاہتوں کے درمیان گھِری ہوئی تھیں۔ اگر جزیرہ عرب کا محلِ وقوع ایسا نہ ہوتا تو ان طاقتوں کے استبداد وتسلط سے عربوں کا بچنا ممکن نہ ہوتا۔ ذیل میں مندرجہ بالا اجمال کی مزید تفصیل بیان کرنا مناسب سمجھتا ہوں: جزیرہ عرب کی تقسیم جب ہم عربوں کے اَشعار وواقعات کا جائزہ لیتے ہیں، تو معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے جزیرہ عرب کو پانچ حصوں میں تقسیم کر رکھا ہے، اور اس تقسیم کی بنیاد دنیائے عرب کا ’’سراۃ‘‘ نامی عظیم ترین پہاڑ ہے،جو درحقیقت پہاڑوں کا ایک طویل سلسلہ ہے، جو بحر احمر کے بالمقابل جنوب میں یمن سے، شمال میں بادیۂ شام تک پھیلا ہوا ہے، اور یہ پہاڑی سلسلہ جزیرہ عرب کو مغربی اور مشرقی دو حصوں میں بھی تقسیم کرتا ہے۔ ذیل میں پانچوں اقسام سے متعلق مختصر معلومات بیان کی جارہی ہیں: