کتاب: الصادق الامین - صفحہ 448
گئیں۔ اللہ کی قسم! میں اس وقت اپنی اس جگہ سے صنعاء کو دیکھ رہا ہوں۔ [1] عمار بن یاسر رضی اللہ عنہ کے بارے میں پیش گوئی[2] ان حالات سے گزر کر صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے خندق کو صرف چھ دن میں مطلوبہ وُسعت وگہرائی کے مطابق دشمنوں کی فوج آنے سے پہلے کھود دیا، اور مدینہ خالی کردیا، اور پورے طور پر دفاع کے لیے تیار ہوگئے عورتوں اور بچوں کو فارع نامی قلعہ میں جمع کردیا، جو بنو حارثہ کا مسلمانوں کے لیے سب سے قوی قلعہ تھا، تاکہ یہ عورتیں اور بچے اللہ کے حکم سے محفوظ رہیں، اور اس طرح صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے کافر جماعتوں کی آمد سے پہلے مدینہ کے دفاعی پلان کے تمام لوازمات پورے کر لیے۔ خندق کھودتے وقت منافقین کا کردار: اب تک جو کچھ لکھا گیا یہ مہاجرین وانصار کا کردار تھا، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے خندق کھودتے وقت سامنے آیا، یہ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم چھ دن مسلسل کھدائی کرتے رہے، نہ بھوک اور پیاس نے انہیں شکست دی اور نہ سخت ٹھنڈک نے، لیکن منافقین کا کردار بزدلی، خوف ودہشت پھیلانا اور مسلمانوں کی ہمت شکنی تھی، سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما نے اہلِ خندق کے لیے کھانے کی کثرت سے متعلق حدیث روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے سامنے ایک چٹان پر ضرب لگا کر ٹکڑے ٹکڑے کردیا اور ہر ضرب پر کہتے رہے اللہ اکبر! کعبہ کے رب کی قسم! میں روم کے محلوں کو دیکھ رہا ہوں، اللہ اکبر ! کعبہ کے رب کی قسم! میں فارس کے محلوں کو دیکھ رہا ہوں، تو منافقین اس وقت کہنے لگے: خندق ہم کھودتے ہیں اور وہ ہم سے فارس اور روم کے محلوں کا وعدہ کررہا ہے۔ [3] اللہ تعالیٰ نے ان منافقین کے بارے میں جو خندق کی کھدائی میں شریک نہیں ہوئے مندرجہ ذیل آیت نازل فرمائی: ((لَّا تَجْعَلُوا دُعَاءَ الرَّسُولِ بَيْنَكُمْ كَدُعَاءِ بَعْضِكُم بَعْضًا ۚ قَدْ يَعْلَمُ اللَّـهُ الَّذِينَ يَتَسَلَّلُونَ مِنكُمْ لِوَاذًا ۚ فَلْيَحْذَرِ الَّذِينَ يُخَالِفُونَ عَنْ أَمْرِهِ أَن تُصِيبَهُمْ فِتْنَةٌ أَوْ يُصِيبَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ)) [النور:63] ’’ مسلمانو! رسول کے بلانے کو تم آپس میں ایک دوسرے کو بلانے کی طرح نہ بناؤ، اللہ تم میں سے ان لوگوں کو خوب جانتا ہے جو نظر بچاکر آہستگی کے ساتھ چلے جاتے ہیں، پس جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم کی مخالفت کرتے ہیں،انہیں ڈرناچاہیے کہ ان پر کوئی بلا نہ نازل ہوجائے، یا کوئی دردناک عذاب نہ انہیں آگھیرے۔‘‘ نیز اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ((وَإِذْ يَقُولُ الْمُنَافِقُونَ وَالَّذِينَ فِي قُلُوبِهِم مَّرَضٌ مَّا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ إِلَّا غُرُورًا ﴿12﴾ وَإِذْ قَالَت
[1] ۔ مسند احمد: 4/ 303، سنن النسائی، الجہاد: 6/ 43، 44، فتح الباری: 7/ 397، اور حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کی سند کو حسن کہا ہے۔ [2] ۔ صحیح مسلم: 4/ 2 23۔ [3] ۔ دیکھئے: مجمع الہیثمی: 6/ 131- 13 2، اسے طبرانی نے روایت کیا ہے اور اس کے رجال حدیثِ صحیح کے رجال ہیں، سوائے عبداللہ بن احمد ابن حنبل اور نعیم عنبری کے، اور یہ دونوں ثقہ ہیں۔