کتاب: الصادق الامین - صفحہ 447
معجزات کا ظہور
خند ق کھودتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی کے ذریعہ کئی معجزات کا ظہور ہوا، ان میں سے بعض کا یہاں ذکر کرتا ہوں:
1۔ کھانے میں برکت:
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ جب خندق کھودی جارہی تھی تو میں نے دیکھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بطنِ مبارک بھوک کی شدت سے پیٹھ سے چپک رہا تھا، میں اپنی بیوی کے پاس گیا اور اس سے پوچھا: کیا تمہارے پاس کھانے کی کوئی چیز ہے؟ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوشدید بھوک کی حالت میں دیکھا ہے، اس نے ایک تھیلی نکالی جس میں ایک صاع جو تھا اور ہمارے پاس گھر میں پلی ہوئی ایک بکری تھی، میں نے اسے ذبح کیا،اور بیوی نے آٹا پیسا، پھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جانے لگا تو بیوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپؐ کے ساتھیوں کے سامنے میری فضیحت نہ کرنا۔ جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: میں آپ کے پاس پہنچا اور چپکے سے کہا: اے اللہ کے رسول! ہم نے اپنی ایک بکری ذبح کی ہے اور میری بیوی نے ایک صاع جو کا آٹا پیسا ہے، جس کے سوا ہمارے پاس اور کچھ نہیں تھا، آپ اپنے چند صحابہ کے ساتھ تشریف لے چلیے، یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زور سے پکارا، اے اہلِ خندق! جابر نے تمہاری دعوت کی ہے، اس لیے تم سب میرے ساتھ چلو، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جابر رضی اللہ عنہ سے کہا: تم اپنی ہانڈی چولہے سے نہ اُتارنا، اور جب تک میں نہ آجاؤں آٹے کی روٹی نہ پکانا، چنانچہ میں آگیا، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تمام صحابہ کے ساتھ تشریف لے آئے، میں جب اپنی بیوی کے پاس پہنچاتو وہ صحابہ کرام کی کثرت کو دیکھ کر مجھے ملامت کرنے لگی، میں نے کہا: میں نے تو ویسا ہی کیا ہے جیسا تم نے مجھ سے کہا تھا۔ میری بیوی نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے آٹارکھ دیا، آپؐ نے اس میں لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر ہانڈی کے پاس گئے اس میں بھی لعاب دہن ڈالا اور برکت کی دعا کی، پھر میری بیوی سے کہا: ایک روٹی پکانے والی کو بلالو، تاکہ وہ تمہارے ساتھ روٹی پکائے اور اپنی ہانڈی سے پیالہ کے ذریعہ سالن نکالتی رہو، اور اسے چولہے سے نہ اُتارو، صحابہ کرام کی تعداد ایک ہزار تھی، میں اللہ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ ان سب نے آسودہ ہوکر کھایا، اور گوشت اور روٹی کو اسی طرح چھوڑ دیا اور واپس چلے گئے اور ہماری ہانڈی ویسی ہی بھری ہوئی ابال کھاتی رہی اور ہمارا آٹا اسی طرح موجو د تھا۔ [1]
2۔ شاہوں کے محلوں اور ملکوں کی کنجیاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے دی گئیں:
براء بن عازب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ خندق کھودتے وقت ایک چٹان کھدائی میں رُکاوٹ بن رہی تھی، کدال اور پھاوڑے کا اس پر کوئی اثر نہیں ہورہا تھا، ہم نے یہ بات رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بتائی توآپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے اور کدال لے کر بسم اللہ کہااور ایک ضرب میں اس کا ایک تہائی حصہ توڑ دیا اور فرمایا: اللہ اکبر ! مجھے ملکِ شام کی کنجیاں دے دی گئیں، اللہ کی قسم ! میں اس وقت ان کے سرخ محلوں کو دیکھ رہا ہوں، پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسری ضرب لگائی اور دوسری تہائی کاٹ دی، اور فرمایا: اللہ اکبر! مجھے ملکِ فارس کی کنجیاں دے دی گئیں، اللہ کی قسم! میں مدائن کے سفید محل دیکھ رہا ہوں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بسم اللہ کہا اور تیسری ضرب لگائی تو آپؐ نے باقی پتھر کاٹ ڈالا اور فرمایا: اللہ اکبر! مجھے یمن کی کنجیاں دے دی
[1] ۔ صحیح البخاری، المغازی، حدیث: (4101)، (410 2)، صحیح مسلم، الاشریہ، حدیث: ( 2039)۔