کتاب: الصادق الامین - صفحہ 445
میں مشورہ کریں، جیسا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہمیشہ مشکل حالات کے وقت یہ عادتِ طیبہ تھی، اس میٹنگ میں صحابیِ جلیل سیّدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ نے مدینہ کے شمالی علاقے میں خندق کھودنے کا مشورہ دیا، تاکہ حرۂ واقم اور حرۂ ابرہ کے دونوں کناروں کو جوڑ دیا جائے جو کافر حملہ آوروں کے لیے تنہا کھلا ہوا علاقہ تھا۔ مدینہ کے دیگر اطراف ایک قلعہ کی طرح تھے، ان میں مکانات اور کھجور کے درخت ایک دوسرے کے ساتھ گتھے ہوئے تھے، اور حَرّوں کے ذریعہ ہر طرف سے گھرے ہوئے تھے، جن کے سبب ان علاقوں میں اونٹوں اور پیادہ پافوجیوں کا چلنا مشکل تھا۔
تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے اس حکیمانہ پلاننگ کی تائید کی جسے عرب پہلے سے نہیں جانتے تھے، اس لیے کہ خندق مسلمانوں اور مشرک جماعتوں کے درمیان ڈائرکٹ جنگی حملوں کی راہ میں ایک رکاوٹ بن کر حائل ہوگئی، اور حملہ آوروں کو مدینہ میں داخل ہونے سے روک دیا، اور مسلمانوں کے لیے ایک بہترین دفاعی کارروائی کا کام دینے لگی، اس لیے کہ دشمن جب بھی خندق کے قریب ہوتے اور اس میں اُتر کر مسلمانوں کی طرف آنا چاہتے تو مجاہدینِ اسلام خندق کے پیچھے سے ان پر تیروں کی بارش کرنے لگتے۔
اسی لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً خندق کھودنے کا حکم دیا، اور مسلمان اس کام میں دل وجان سے مصروف ہو گئے اور ہر دس مسلمانوں کو چالیس گز کھدائی کی ذمہ داری دے دی گئی، مہاجرین نے مشرق میں قلعۂ راتج کی طرف سے قلعۂ ذباب تک کھودنے کی ذمہ داری سنبھال لی، اور انصار نے قلعۂ ذباب سے مغرب میں جبل عبید تک، کھدائی کا کام سخت سردی اور قحط سالی اور بھوک اور پیاس کے باوجود نہایت تیزی کے ساتھ انجام پایا۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خندق میں موجود تھے، کھودنے والے کھدائی کا کام کرتے تھے اور ہم لوگ اپنے کندھوں پر مٹی اُٹھاکر دوسری جگہ منتقل کرتے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس وقت فرمایا:
اَللّٰہُمَّ لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃِ
فَاغْفِرْ لِلْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَۃِ
’’ اے اللہ! آخرت کی زندگی کے سوا کسی زندگی کی کوئی حقیقت نہیں، اس لیے تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرمادے۔ ‘‘
سیّدنا انس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خندق کی طرف گئے جہاں سخت ٹھنڈک میں مہاجرین وانصار کھدائی کا کام کررہے تھے، اس لیے کہ ان کے پاس غلام نہیں تھے جو ان کے بدلے یہ کام کرتے۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تھکن اور بھوک کے سبب ان کا حالِ زار دیکھا تو فرمایا:
اَللّٰہُمَّ لَا عَیْشَ اِلَّا عَیْشُ الْآخِرَۃِ
فَاغْفِرْ لِلْاَنْصَارِ وَالْمُہَاجِرَۃِ
’’ اے اللہ! حقیقی زندگی تو صرف آخرت کی زندگی ہے، اس لیے تو انصار اور مہاجرین کی مغفرت فرمادے۔‘ ‘
تو صحابہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یوں جواب دیا: