کتاب: الصادق الامین - صفحہ 444
نے کہا:بلکہ تمہارا دین اس کے دین سے زیادہ بہتر ہے اور تم لوگ اس کے مقابلے میں تائیدِ الٰہی کے زیادہ حقدار ہو، تو اللہ تعالیٰ نے ان کے بارے میں نازل فرمایا:
((أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يُؤْمِنُونَ بِالْجِبْتِ وَالطَّاغُوتِ وَيَقُولُونَ لِلَّذِينَ كَفَرُوا هَـٰؤُلَاءِ أَهْدَىٰ مِنَ الَّذِينَ آمَنُوا سَبِيلًا أُولَـٰئِكَ الَّذِينَ لَعَنَهُمُ اللَّـهُ ۖ وَمَن يَلْعَنِ اللَّـهُ فَلَن تَجِدَ لَهُ نَصِيرًا)) [النساء:51-52]
’’ کیا آپ نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جنہیں کتابِ الٰہی کا ایک حصہ دیا گیا ہے کہ وہ بتوں اور شیطانوں پر ایمان رکھتے ہیں، اور کافروں کے بارے میں کہتے ہیں کہ یہ لوگ ایمان والوں کے مقابلہ میں زیادہ صحیح راستہ پر ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جن پر اللہ نے لعنت بھیج دی ہے، اور جس پر اللہ لعنت بھیج دے، آپ اُس کا کوئی مدد گار نہ پائیں گے۔ ‘‘
پھر یہ زعمائے یہود مکہ سے دیارِ نجدکی طرف گئے اور غطفان کے بڑے قبیلے کے ساتھ مسلمانوں سے جنگ کرنے کا معاہدہ کیا، پھر قبائلِ عرب میں گھوم گھوم کر سب کو مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اکساتے رہے، جس کے نتیجہ میں بہت سے قبائل نے ان کی بات مان لی اور یہود کی کوششوں سے مشرکین کی جماعتوں نے مسلمانوں کے خلاف آپس میں ایک زبردست معاہدہ کیا۔
موسیٰ بن عقبہ لکھتے ہیں کہ یہودیوں کے وفد نے قبیلۂ غطفان سے خیبر کی آدھی کھجوروں کا وعدہ کردیا، تاکہ انہیں بہرحال اس معاہدہ میں شرکت پر مجبور کردیں۔ [1]
چنانچہ کفارِ قریش ابوسفیان کی قیادت میں چار ہزار کا لشکرِ جرار لے کر جنوب کی طرف سے نکلے، اور ان کے ساتھ بنی سلیم، کنانہ او راہلِ تہامہ سے ان کے حلفاء بھی تھے۔
مشرق سے قبائلِ غطفان: بنو فزارہ جن کا قائد عیینہ بن حصن تھا، اور بنو مرّہ جن کا قائدحارث بن عوف تھا، اور بنواشجع جن کا قائد مسعر بن رخیلہ بن مغیرہ تھا وغیرہم نکلے، نیز مشرک قبائل میں سے بنو اسد وغیرہ بھی ان کے ساتھ ہوگئے۔
کفارِ قریش اور ان کے حلفاء کے اکٹھا ہونے کی جگہ مرالظہران مقرر تھی جو مکہ سے چالیس کلومیٹر کی دوری پر ہے، چنانچہ تمام حلفاء اس جگہ جمع ہوکر ایک ساتھ مدینہ کی طرف چلے، ان کی مجموعی تعداد دس ہزار سے زیادہ تھی، ان تمام عورتوں، بچوں، جوانوں، اور بوڑھوں کی تعداد سے زیادہ جو مدینہ میں رہتے تھے۔ اور جُرف اور زغابہ کے درمیان سیلابی پانی کے جمع ہونے کی جگہ پر خیمہ زن ہوگئے، اور غطفان اور بنو اسد کے لوگ احد کے بغل میں باب نعمان میں خیمہ زن ہوئے۔
خندق کھودنے کی پلاننگ:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو مشرک جماعتوں اور گروہوں کے مرالظہران میں جمع ہوکر مدینہ کی طرف چل پڑنے کی خبر ہوئی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوراً صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کو جمع کیا، تاکہ اس مشکل گھڑی سے نمٹنے اور مناسب تر کارروائی کے لیے آپس
[1] ۔ دیکھئے: سیرۃ ابن ہشام: 2/ 211، 21 2، صحیح السیرۃ النبویۃ، ابراہیم: ص/ 351- 35 2۔