کتاب: الصادق الامین - صفحہ 443
اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم ہر لمحہ مرکزِ اسلام مدینہ منورہ اور وہاں رہنے والے مہاجرین وانصار کا دفاع کرنے کے لیے چوکنے اور تیار رہتے تھے۔
ایک اہم سبب جس نے مسلمانوں کے خلاف نئے سرے سے ان کے غیظ وغضب کو بھڑکا دیا تھا وہ غزوۂ احد میں ان کی محرومی ونامرادی تھی، ان کا خیال تھا کہ وہ مدینہ منورہ میں داخل ہوکر مسلمان عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل کر دیں گے، لیکن اللہ نے ان کے اس زعمِ باطل کویکسر ناکام بنادیا، اور وہ مکہ لوٹ گئے، اس لیے کہ حقیقت میں ان کے دل رعب اورخوف ودہشت سے بھرے ہوئے تھے اور ایک لمحہ کے لیے بھی انہوں نے مدینہ میں داخل ہونے کی نہیں سوچی، جیسا کہ تفصیل گزرچکی ہے۔
غزوۂ احد کے بعد ان کا شام کی طرف جانے والا تجارتی راستہ بند ہوگیا اور ان کے تمام فوجی اور اقتصادی منصوبے ناکام ہوگئے، اس غزوہ کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فوجی دستوں کو ہر چہار طرف بھیجنے میں بہت زیادہ تیزی کی، تاکہ مدینہ پر حملہ کرنے کا ارادہ کرنے والے ہر کافر کا سر کچل دیا جائے، اس لیے مکہ میں موجود مشرکین کے دل مسلمانوں کی بڑھتی طاقت کو دیکھ کر غم واندوہ سے بھرگئے، اور جب سے مدینہ سے لوٹ کر مکہ پہنچے، اسی فکر میں لگے رہے کہ وہ عرب قبائل اور خاندانوں کو جمع کریں اور انہیں مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی طاقت سے ڈرائیں، اور ان سے جنگ کرنے پر انہیں اُبھاریں، اور ان کے دل میں اس بات کو اچھی طرح بٹھادیں کہ اگر وہ مدینہ جاکر مسلمانوں کو ختم کرنے کے لیے مشرکین قریش کے ساتھ جمع نہیں ہوں گے، تو ایک دن یہ مسلمان ان قبائل پر حملہ کرکے ان کا صفایا کردیں گے، غزوۂ خندق کا یہی سب سے پہلا سبب تھا۔
دوسرا سبب:
یہودِ بنی نضیر کو مدینہ سے نکالنا اور ان کی شر انگیزی اور فتنہ انگیزی سے بچنے کے لیے انہیں وہاں سے خیبر کی طرف بھگادینا۔ لیکن دشمن خاموش نہیں رہتا اور کبھی بھی اپنی سازشوں سے باز نہیں آتا، اور جو شخص اپنے دشمنوں کے بارے میں اس کے سوا کوئی خوش خیالی رکھتا ہے، وہ یقینا بے وقوف اور مغفل ہوتا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم بلاشبہ ذی ہوش اور بیدار مغز انسان تھے اور وحی الٰہی ان کی تائید کررہی تھی، اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کبھی بھی یہود اور ان کی سازشوں کی طرف سے مطمئن نہیں ہوئے۔
یہودِ بنو نضیر خیبر میں رہتے ہوئے مسلمانوں کے خلاف سازش کرتے رہے اور چپکے چپکے جنگ کی تیاری، اور کافروں اور منافقوں کے ساتھ جوڑ توڑ کرتے رہے، چنانچہ ان کے کئی لیڈر مکہ گئے، تاکہ کفارِ قریش اور دیگر قبائلِ عرب کے ساتھ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور مسلمانوں سے جنگ کرنے کے لیے معاہدہ کریں، ان لیڈروں میں بنی نضیر کے حُیَي بن اخطب، سَلاَّم بن مشکم، سلام بن ابی الحقیق، کنانہ بن ربیع بن ابی الحقیق اور ہوذہ بن قیس وائلی، ابو عمار وائل اور حوح بن عامر وغیرہ تھے، جب یہ لوگ مکہ پہنچے، اور زعمائے مشرکین سے مل کر انہیں مسلمانوں کے خلاف جنگ پر اُبھارا، اور ان سے وعدہ کیا کہ وہ لوگ ان کی ضرور مدد کریں گے، اور میدانِ کارزار میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے، اور جنگ میں پوری طرح ان کا ساتھ دیں گے تو قریشیوں نے ان کی بات مان لی،اور اُن سے کہا: اے جماعتِ یہود! تم لوگ پہلی آسمانی کتاب والے ہو، اور جس بارے میں ہمارا اور محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کا اختلاف ہے اسے خوب جانتے ہو، بتاؤ کہ ہمارا دین بہتر ہے یا اس کا دین؟ انہوں