کتاب: الصادق الامین - صفحہ 442
غزوۂ خندق
اس غزوہ کا نام غزوۂ خندق اس خندق کی اہمیت کے سبب پڑگیا جسے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنھم نے مکی فوج اور ان عرب گروہوں کوروکنے کے لیے کھودا تھا جو اہلِ مدینہ کے خلاف جنگ کرنے کے لیے کفارِ قریش کے ساتھ جمع ہوگئے تھے، اسے غزوۂ احزاب بھی کہا جاتا ہے، اس لیے کہ مشرکین کے بہت سے گروہ جمع ہوکر مدینہ اس لیے آئے تھے کہ وہ اپنے زعمِ باطل کے مطابق مسلمانوں کو یکسر ختم کردینا چاہتے تھے، اسی لیے اللہ تعالیٰ نے ان گروہوں کو احزاب یعنی مختلف گروہوں کا نام دے دیا۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
((وَلَمَّا رَأَى الْمُؤْمِنُونَ الْأَحْزَابَ قَالُوا هَـٰذَا مَا وَعَدَنَا اللَّـهُ وَرَسُولُهُ وَصَدَقَ اللَّـهُ وَرَسُولُهُ ۚ وَمَا زَادَهُمْ إِلَّا إِيمَانًا وَتَسْلِيمًا)) [الأحزاب: 2 2]
’’ اور جب مومنوں نے دشمنوں کی فوجوں کو دیکھا تو کہنے لگے کہ یہ تو وہی چیز ہے جس کا ہم سے اللہ اور اس کے رسول نے وعدہ کیا تھا، اور اللہ اور اس کے رسول نے سچ فرمایا، اور اس بات نے تو ان کے ایمان اور طاعت وفرمانبرداری کو اور بڑھادیا۔ ‘‘
یہ غزوہ جمہور علماء کے قول کے مطابق ماہِ شوال سن 5 ہجری میں ہوا، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے فتح الباری میں اسی قول کو ترجیح دی ہے اور ان لوگوں کی تردید کی ہے جو کہتے ہیں کہ یہ غزوہ ماہِ شوال سن 4 ہجری میں ہوا، اور اس کا سبب بیان کیا ہے، نیز کہا ہے کہ یہ قول قابلِ اعتماد نہیں ہے۔
امام ابن القیم رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہ غزوہ دو قولوں میں سے زیادہ صحیح قول کے مطابق ماہِ شوال سن 5 ہجری میں ہوا تھا، اس لیے کہ اس بارے میں کوئی اختلاف نہیں کہ غزوۂ احد شوال سن 3 ہجری میں ہوا تھا، اور مشرکوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے آئندہ سال جنگ کرنے کا وعدہ کیا تھا، جو سن 4 ہجری ہوتا ہے، لیکن انہوں نے اس سال کی قحط سالی کے سبب وعدہ پورا نہیں کیا، اور لوٹ گئے، اور جب پانچواں سال ہوا تو کفارِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ کرنے کے لیے مدینہ آگئے، مؤرخینِ سیر ومغازی کے نزدیک یہی قول راجح ہے۔ [1]
اس غزوہ کے دو اہم اسباب
مؤرخینِ سیرت نے اس غزوہ کے دو اہم اسباب بتائے ہیں:
پہلا سبب:
مسلمانوں اور مشرکینِ قریش کے درمیان مستقل جنگی چھیڑ چھاڑ۔ مشرکین کی طرف سے ہر وقت جنگ کا اعلان رہتا تھا،
[1] ۔ دیکھئے: سیرۃ ابن ہشام: 2/ 214، فتح الباری، المغازی: 7/ 393، دلائل البیہقی: 3/ 39 2، 393۔