کتاب: الصادق الامین - صفحہ 439
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیّدہ جویریہ رضی اللہ عنہما سے شادی اور ان کی قوم کے قیدیوں کی آزادی کا بنی المصطلق کے دلوں پر بہت ہی اچھا اور گہرا اثر پڑا، چنانچہ ان تمام نے اسلام قبول کرلیا، اور اللہ اور اس کے رسول کے تابعِ فرمان بن گئے، اور اسلام کے دفاع میں زندگی بھر جہاد کرتے رہے۔ اس غزوہ سے مستفاد شرعی احکام: علمائے کرام نے اس غزوہ کی تفصیلات اور اس بارے میں نازل شدہ آیاتِ قرآنیہ سے شرعی احکام مستنبط کیے ہیں، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں: 1- جن کافروں کو اسلام کی دعوت پہنچ چکی ہو، ان پر اچانک حملہ کرنا جائز ہے، اور جنہیں اسلام کی دعوت نہ پہنچی ہو اُن پر حملہ کرنے سے پہلے اسلام کی دعوت دینی واجب ہے۔ 2- لونڈی کی آزادی کو اس کا مہر بنانا صحیح ہے، جیساکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امّ المومنین جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہ کے ساتھ او رغزوۂ خیبر میں سیّدہ صفیہ بنت حُیَيْ بن اخطب رضی اللہ عنہما کے ساتھ کیا۔ 3- سفر کے وقت بیویوں کے درمیان قرعہ اندازی مشروع ہے، تاکہ سفر میں اُسے ساتھ لے جایا جائے جس کے نام کا قرعہ نکلے، جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس غزوہ میں کیا، اور قرعہ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کے نام نکلا۔ 4- جھوٹی تہمت دھرنے والوں اور بہتان تراشوں پر حد جاری کرنا قرآن وسنت سے ثابت ہے۔ 5- عربوں کو غلام بنانا جائز ہے، جیساکہ اس غزوہ میں بنی المصطلق کو غلام بنالیا گیا، حالانکہ وہ قبیلۂ خزاعہ کے عرب تھے۔ 6- علمائے امت کا اجماع ہے کہ جو شخص سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کو گالی دے گا، اور ان پر منافقین کی طرح تہمت دھرے گا وہ بلاشبہ کافر ہوگا، اس لیے کہ اس نے اللہ اور اس کے رسول کو جھٹلایا اور قرآن کریم کا انکار کیا۔ 7- بیویوں سے عزل کرنا(یعنی خارجِ رحم انزال کرنا) جائزہے، اس لیے کہ صحابہ کرام نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں اجازت دے دی، اور فرمایا: اگر تم ایسا نہ کرو تب بھی کوئی حرج نہیں، اس لیے کہ قیامت کے دن تک جس روح کو بھی پیدا ہونا ہے وہ پیدا ہوکر رہے گی۔ اس لیے جمہور علماء نے آزاد بیویوں کی اجازت سے عزل کو جائز قرار دیا ہے۔ 8- حادثۂ افک اس بات کی صریح دلیل ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غیب کا علم نہیں رکھتے تھے اور کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہتے تھے، اس حادثہ کے موقع سے ایک ماہ سے زیادہ وحی نازل نہیں ہوئی اور نبی کے گھرانے اور مسلم سوسائٹی میں شدید پریشانی اور اضطراب کا عالم رہا، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کوئی بات اپنی طرف سے نہیں کہی، یہاں تک کہ عائشہ رضی اللہ عنہما کی براء ت میں اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی نازل فرمائی۔ اور آپ نے صحابہ کرام کے سامنے ان آیتوں کی تلاوت فرمائی جن میں عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کی براء ت کا بیان آیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے سورہ کہف میں فرمایاہے: ((قُلْ إِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ يُوحَىٰ إِلَيَّ أَنَّمَا إِلَـٰهُكُمْ إِلَـٰهٌ وَاحِدٌ ۖ فَمَن كَانَ يَرْجُو لِقَاءَ رَبِّهِ فَلْيَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَلَا يُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهِ أَحَدًا)) [الکہف: 110]