کتاب: الصادق الامین - صفحہ 438
قرآن کریم نازل فرمایا جسے مسلمان رہتی دنیا تک تلاوت کرتے رہیں گے، اور بلاشبہ امّ المومنین عائشہ رضی اللہ عنہما کے لیے یہ ایک بہت ہی بڑا شرف واعزاز تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہما کو زندگی بھر اس کا احساس بھی رہا، اسی لیے وہ کہا کرتی تھیں کہ میں سوچ بھی نہیں سکتی تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہوگی جس کی لوگ تلاوت کریں گے، اس لیے کہ میری حیثیت خود میری نگاہ میں ایسی نہیں تھی کہ اللہ تعالیٰ میرے بارے میں کلام کریں گے، اور وحی نازل کریں گے جس کی تلاوت کی جائے گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شادی سیّدہ جویریہ بنت الحارث رضی اللہ عنہما سے:
ان کا نام جویریہ بنت الحارث بن ابو ضرار مصطلقیہ خزاعیہ رضی اللہ عنہ تھا۔ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں کہ جب اللہ کے رسولؐ نے بنی مصطلق کے قیدیوں کو مجاہدین کے درمیان تقسیم کیا تو سیّدہ جویریہ بنت الحارث ، ثابت بن قیس بن شماس یاان کے کسی چچازاد بھائی کے حصے میں آگئیں، تو جویریہ رضی اللہ عنہ نے ان کے ساتھ اپنے معاملے میں مکاتبت [1]کرلی، وہ نہایت خوبصورت تھیں، انہیں جب بھی کوئی دیکھتا تو ان کے حسن وملاحت سے مسحور ہوجاتا، مکاتبت کے بعد وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس مالی تعاون حاصل کرنے کے لیے آئیں، سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: اللہ کی قسم! جب میں نے انہیں اپنے کمرے کے دروازے پر دیکھا تو اچھا نہیں سمجھا، اور مجھے یقین ہوگیا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے ضرور متاثر ہوجائیں گے۔
وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئیں، اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں اپنی قوم کے سردار حارث کی بیٹی جویریہ ہوں، اور مجھ پر وہ مصیبت آپڑی ہے جو آپ سے مخفی نہیں، میں نے اپنے سلسلے میں مکاتبت کی ہے، آپ مکاتبت کا مال ادا کرنے کے لیے میری مدد کیجیے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم اس سے بہتر معاملہ چاہتی ہو؟ اس نے کہا: وہ کیا ہے، اے اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہاری مکاتبت کی رقم ادا کردوں اور تم سے شادی کرلوں، انہوں نے کہا: ہاں، اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: لوگوں میں یہ خبر عام ہوگئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جویریہ بنت الحارث سے شادی کرلی ہے، اور لوگ یہ بھی کہنے لگے کہ بنی المصطلق کے قیدی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار ہوگئے، اس لیے سب نے اپنے اپنے قیدیوں کو آزاد کردیا۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جویریہ سے شادی نے بنی المصطلق کے سو گھرانوں کو آزادی دلائی، میں ان سے زیادہ کسی عورت کو اپنی قوم کے لیے بابرکت نہیں جانتی۔ [2]
حارث بن ابی ضرار مدینہ آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ آپ ان کی بیٹی کو چھوڑ دیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا کہ وہ اپنی بیٹی کو اختیار دیں، انہوں نے اپنی بیٹی جویریہ رضی اللہ عنہما کو اختیار دیا تو انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہنے کو اختیار کرلیا۔ بعد میں حارث بن ابی ضرار اور ان کی قوم کے لوگ اسلام لے آئے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو اپنی قوم سے زکاۃ کی وصولی کا نگراں بنادیا۔ [3]
[1] ۔ مکاتبت یہ ہے کہ جنگ میں قید کیا گیا غلام، یا قید کی گئی لونڈی اپنے مالک سے سمجھوتہ کرلے کہ وہ ایک متعین رقم اسے ادا کرکے آزاد ہوجائے گی۔
[2] ۔ مسند احمد: 6/ 277، مستدرک حاکم: 4/ 26، دلائل البیہقی: 4/49۔
[3] ۔ السیرۃ النبویۃ الصحیحۃ: ص/ 413۔