کتاب: الصادق الامین - صفحہ 437
پر حد جاری کی گئی۔ [1]
ان تینوں مخلص مسلمانوں کے لیے کسی طرح مناسب نہ تھا کہ وہ منافقین کے جال میں پھنستے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے ان پر عتاب کرتے ہوئے فرمایا:
((لَّوْلَا إِذْ سَمِعْتُمُوهُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُونَ وَالْمُؤْمِنَاتُ بِأَنفُسِهِمْ خَيْرًا وَقَالُوا هَـٰذَا إِفْكٌ مُّبِينٌ)) [النور: 12]
’’ جب تم لوگوں نے یہ بات سنی تو مسلمان مردوں اور عورتوں نے اپنے ہی جیسے مسلمان مردوں اور عورتوں کے بارے میں اچھا گمان کیوں نہیں کیا، اور کیوں نہیں کہہ دیا کہ یہ تو کھلم کھلا بہتا ن ہے۔ ‘‘
اس لیے کہ مومنوں پر واجب ہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے گھرانے کے بارے میں پورے طور پر چوکنّا رہیں اور ان کا کامل اعتماد اور ایمان ہوکہ نبی کے گھرانے کے افراد ایسے گناہ میں ہرگز مبتلا نہیں ہوسکتے تاکہ اسلامی دعوت کے دل میں خنجر پیوست نہ ہوجائے، اسی لیے ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ نے جب اس جھوٹے بہتان کے بارے میں سنا تو بغیر کسی توقف کے کہا: اللہ کی ذات تمام عیوب سے پاک ہے، ہمارے لیے ایسی بات کرنا کسی طرح بھی مناسب نہیں، یقینا یہ بہتانِ عظیم ہے۔ [2]
ممکن ہے کوئی شخص کہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رئیس المنافقین عبداللہ بن اُبی پر حد کیوں نہیں جاری کی، حالانکہ سب سے پہلا فتنہ انگیز وہی تھا، تو اس سے کہا جائے گا کہ بظاہر حدود جاری کرنے کی سب سے بڑی حکمت گناہ گار کو اس کے گناہ سے پاک کرنا ہوتا ہے اور اس مجرم ومنافق کو تو اللہ تعالیٰ نے آخرت میں بڑے عذاب کی وعید دے رکھی ہے، اس لیے اس پر حد جاری نہیں کی گئی، تاکہ اس کا کندھا اس عظیم گناہ اور اس کے علاوہ دیگر بڑے گناہوں سے بوجھل رہے، جن کا وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مدینہ منورہ آنے کے بعد پوری زندگی میں ارتکاب کرتا رہا تھا، تاکہ قیامت کے دن جب وہ اللہ سے ملے تو عظیم ترہلاکت وبربادی کا مستحق بنے۔
اس مجرم پر حد جاری نہ کرنے کے ظاہری اور اہم اسباب میں سے یہ بھی تھا کہ اس کے ساتھ منافقین اور یہود کی ایک جماعت ملی ہوئی تھی، جو مسلمانوں کی ابتلاء وآزمائش کا انتظار کر تی رہتی تھی، اور اوس وخزرج کے درمیان نیز مہاجرین اور انصار کے درمیان فتنہ وشرانگیزی کے لیے اوقات وحالات کا انتظار کرتی رہتی تھی، اس لیے دعوت إلی اللہ کی حکمت اوراسلامی اسٹیٹ کی بنیادوں کو مضبوط کرنے کا تقاضا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان منافقین ویہود کومسلمانوں کی صفوں میں کسی فتنہ انگیزی کا موقع نہ دیں، اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بدبخت منافق کی بہت سی شرانگیزیوں کو نظر انداز کرنا اور اس بارے میں خاموش رہنا ہی مناسب سمجھا تھا۔
اور اللہ تعالیٰ نے سیّدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہما کو ان کے صبر اور حُسنِ توکل کا بہترین بدلہ یہ عطا فرمایاکہ ان کی براء ت میں
[1] ۔ سنن الترمذی، التفسیر، حدیث: (318)، سنن ابن ماجہ، الحدود، حدیث: (2765)، مصنف عبدالرزاق: 5/ 19، مسند احمد: 6/ 61۔
[2] ۔ فتح الباری: 13/ 344۔