کتاب: الصادق الامین - صفحہ 434
جھوٹی خبر پھیلی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم میرے پاس کبھی نہیں بیٹھے تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا عائشہ رضی اللہ عنہ سے استفسار:
ایک مہینہ گزرگیا تھا اورمیرے بارے میں آپ پر کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے شہادت کا کلمہ پڑھا: پھر فرمایا: اے عائشہ! تمہارے بارے میں مجھے ایسی اور ایسی خبر ملی ہے، اگر تم پاکدامن ہو تو اللہ عنقریب تمہاری براء ت وپاکدامنی کو ظاہر کردے گا، اور اگر تم سے کوئی گناہ سرزد ہوگیا ہے تو اللہ سے مغفرت مانگو، اور اس کی جناب میں توبہ کرو، اس لیے کہ بندہ جب گناہ کا اعتراف کرلیتا ہے اور تائب ہوجاتا ہے تو اللہ اس کی توبہ کو قبول کرلیتا ہے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہ کہتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات ختم ہوئی، تو میرے آنسو ٹھہر گئے، میں اس کا ایک قطرہ بھی اپنی آنکھ میں محسوس نہیں کررہی تھی، میں نے اپنے والد سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجیے، ابوبکر رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہوں؟ پھر میں نے اپنی والدہ سے کہا: آپ میری طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جواب دیجیے، تو انہوں نے بھی کہا: اللہ کی قسم! مجھے نہیں معلوم کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کیا کہوں؟
تو میں نے کہا: میں ایک کم سن لڑکی ہوں، زیادہ قرآن پڑھنا نہیں جانتی، میں اللہ کی قسم! جانتی ہوں کہ آپ لوگوں نے یہ بات سنی اور آپ کے دل ودماغ میں بیٹھ گئی اور اسے سچ مان لیا، اگر میں آپ سب سے کہوں کہ میں بری ہوں اور اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں، تو آپ لوگ میری بات نہیں مانیں گے، اور اگر میں کسی بات کا اعتراف کرلوں، حالانکہ اللہ جانتا ہے کہ میں بری ہوں تو آپ لوگ فوراً میری تصدیق کربیٹھیں گے، اللہ کی قسم! میری اور آپ لوگوں کی مثال ویسی ہی ہے جیسی یوسف علیہ السلام کے باپ یعقوب علیہ السلام نے کہی تھی:
((فَصَبْرٌ جَمِيلٌ ۖ وَاللَّـهُ الْمُسْتَعَانُ عَلَىٰ مَا تَصِفُونَ)) [یوسف: 18]
’’ پس مجھے اچھے صبر سے کام لینا ہے، اور جو کچھ تم بیان کررہے ہو اس پر اللہ سے ہی مدد مانگنی ہے۔ ‘‘
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: پھر میں وہاں سے اُٹھ کر اپنے بستر پر لیٹ گئی، اور اللہ کی قسم! مجھے معلوم تھا کہ میں بری ہوں، اور یقین تھا کہ اللہ ضرور میری براء ت کو ظاہر کرے گا، لیکن اللہ کی قسم! میں کبھی بھی یہ نہیں سمجھتی تھی کہ میرے بارے میں وحی نازل ہوگی جس کی تلاوت کی جائے گی، میں تو اپنے آپ کو اس سے حقیر سمجھتی تھی کہ اللہ میرے بارے میں قرآن کریم میں آیت نازل فرمائیں گے، جسے دنیا پڑھا کرے گی، میں تو یہ امید لگائے بیٹھی تھی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کوئی خواب دیکھیں گے جس میں اللہ تعالیٰ انہیں میری براء ت کی خبر دیں گے۔
براء تِ عائشہ رضی اللہ عنہ کے سلسلہ میں نزولِ وحی:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: اللہ کی قسم! رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی اپنی جگہ سے اُٹھے بھی نہیں تھے، اور نہ میرے گھر والوں میں سے کوئی باہر گیا تھا کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر وحی نازل فرمائی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر وہ کیفیت طاری ہوگئی جو عام طور پر نزولِ وحی کے وقت طاری ہوتی تھی، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی پر پسینے کے قطرے ظاہر ہونے لگے۔
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی تمام ہوگئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکرانے لگے، اور پہلا کلمہ جو