کتاب: الصادق الامین - صفحہ 433
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا صحابہ کرام سے مشورہ: ادھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی بن ابوطالب اور اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما کو بلایا، تاکہ اپنی بیوی کوطلاق دینے کے بارے میں ان سے مشورہ کریں، اس لیے کہ اس سلسلے میں اب تک کوئی وحی نازل نہیں ہوئی تھی، عائشہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں: اسامہ رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی بیوی کی براء ت اور پاکدامنی کا یقین دلایا، اور تمام اہلِ بیت سے اپنی محبت کا اظہار کرتے ہوئے کہا: اے اللہ کے رسول ! وہ آپ کی بیوی ہیں، اورہم لوگ ان کے بارے میں سوائے اچھی بات کے کوئی بری بات نہیں جانتے۔ لیکن علی بن ابوطالب رضی اللہ عنہ نے کہا: اللہ تعالیٰ نے آپ پر عورتوں کا دروازہ تنگ نہیں کردیاہے، اگر آپ لونڈی سے پوچھیں گے،تو وہ آپ کو سچ بتادے گی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بریرہ کو بلایا، اور کہا: اے بریرہ! کیا تونے عائشہ کی طرف سے شک وشبہ کی کوئی بات دیکھی ہے؟ بریرہ نے کہا: اس اللہ کی قسم! جس نے آپ کو دینِ حق کے ساتھ بھیجا ہے، میں نے ان کی طرف سے کبھی کوئی ایسی بات نہیں دیکھی جسے میں نے معیوب جانا ہو، سوائے اس کے کہ وہ کم سن لڑکی ہیں، آٹا گوندھ کر سوجاتی ہیں، اور بکری آکر اسے کھاجاتی ہے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منبر پر کھڑے ہوئے اور عبداللہ بن ابی بن سلول کا ذکرِ شر کرتے ہوئے فرمایا: اے مسلمانو! مجھے کون اس آدمی کے بارے میں معذور جانے گا جس کی اذیت میرے گھروالوں کے سلسلے میں انتہاء کو پہنچ چکی ہے، اللہ کی قسم! میں نے اپنی بیوی کے بارے میں سوائے اچھی بات کے کوئی بری بات نہیں جانی ہے، اور لوگوں نے ایک ایسے مسلمان آدمی کا نام لیا ہے جس کے بارے میں بھی میں نے سوائے اچھی بات کے کوئی بری بات نہیں سنی ہے، اور وہ میرے گھر میں صرف میرے ساتھ داخل ہوتے تھے۔ یہ سن کر سعد بن معاذ انصاری رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے اور کہا: اے اللہ کے رسول! میں آپ کو اس کے بارے میں معذور سمجھتا ہوں، اگر وہ اوس کا کوئی آدمی ہے تو ہم اس کی گردن ماردیں گے، اور اگر وہ ہمارے خزرجی بھائیوں میں سے ہے، تو آپ ہمیں حکم دیں گے اور ہم آپ کے حکم کی تعمیل کریں گے۔ عنقریب تھا کہ فتنہ کی آگ بھڑک اُٹھتی: یہ سن کر خزرج کے سردار سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ کھڑے ہوگئے، جو ایک نیک آدمی تھے، لیکن عصبیت ان پر غالب آگئی اور سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ سے کہنے لگے: اللہ کی قسم! تم جھوٹ بولتے ہو،تم اسے قتل نہیں کرسکتے، یہ سن کر اسید بن حضیر رضی اللہ عنہ کھڑے ہوئے جو سعد بن معاذ رضی اللہ عنہ کے چچا زاد بھائی تھے، اور سعد بن عبادہ رضی اللہ عنہ سے کہا: بلکہ تم جھوٹے ہو، ہم اسے یقینا قتل کردیں گے، تم منافق ہو، اور منافقوں کا دفاع کررہے ہو۔ پھر اوس وخزرج دونوں قبیلے بپھر اُٹھے اور جنگ وقتال پر آمادہ ہوگئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وقت تک منبر پر کھڑے تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان سب کو خاموش کرتے رہے، یہاں تک کہ سب چُپ ہوگئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی چپ ہوگئے۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: میں سارا دن روتی رہی، نہ آنسو تھمتے تھے اور نہ نیند آتی تھی، دوسری رات بھی روتی رہی، نہ آنسوتھمے اور نہ نیند آئی، اور میرے والدین کو گمان ہوچلا کہ مسلسل رونے سے میرا کلیجہ پھٹ جائے گا، وہ دونوں میرے پاس بیٹھے تھے اور میں رورہی تھی کہ ایک انصاری عورت اجازت لے کر میرے پاس آئی اور بیٹھ کر میرے ساتھ رونے لگی۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: ہم سب اسی حال میں تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے، سلام کیا، اور بیٹھ گئے۔ جب سے یہ