کتاب: الصادق الامین - صفحہ 432
اسی لیے میں اپنی سابق جگہ پر بیٹھ گئی، اس خیال سے کہ لوگوں کو جب ہودج میں میرے نہ ہونے کا علم ہوگا تو میرے پاس لوٹ کر آئیں گے، میں اپنی جگہ پر بیٹھی سوگئی، صفوان بن معطل السلمی رضی اللہ عنہ وہاں رات کے آخری پہر میں پہنچ کر آرام کرنے کے لیے سوگئے، جب صبح ہوئی تو انہوں نے وہاں ایک آدمی کو سویا دیکھا، وہ میرے پاس آئے اور مجھے دیکھتے ہی پہچان گئے، اس لیے کہ پردہ کا حکم نازل ہونے سے پہلے وہ مجھے بارہا دیکھ چکے تھے، میں ان کی زبان سے انا للہ وانا الیہ راجعون سُن کر جاگ اُٹھی اور اپنا چہرہ اپنے دو پٹہ سے ڈھانک لیا، اللہ کی قسم، انہوں نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی اور نہ میں نے ان کی زبان سے انا للہ کے علاوہ کوئی لفظ سنا، انہوں نے اپنی سواری کو بٹھا دیا، میں اس پر سوار ہوگئی، اور وہ اونٹنی کو ہانکتے ہوئے چل پڑے، یہاں تک کہ ہم فوج کے پاس دوپہر کے وقت پہنچے، اس وقت تک اللہ تعالیٰ کی طرف سے جس کی تقدیر میں میری عزت پر حملہ کرکے ہلاک ہونا لکھا تھا، وہ ہلاک ہوچکا تھا، اس بہتان تراشی کا سب سے پہلا مجرم عبداللہ بن ابی بن سلول تھا۔
حادثۂ إفک کی خبرمدینہ میں:
سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما کہتی ہیں: ہم لوگ مدینہ پہنچ گئے، مدینہ پہنچنے کے بعد میں ایک ماہ تک بیمار رہی، اور لوگ بہتان تراشوں کے بارے میں مختلف قسم کی باتیں کرتے رہے، اور مجھے کسی بات کی کوئی خبر نہیں ہوتی تھی، لیکن جو چیز مجھے بیماری کی حالت میں ایک گونا شک وشبہ میں مبتلا کرتی تھی، وہ یہ تھی کہ میں بیماری کی حالت میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے جس لطف وعنایت کا پہلے احساس کرتی تھی، اسے اس بار نہیں پاتی تھی، رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آتے، سلام کرتے اور پھر کہتے: تم کیسی ہو؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ انداز میرے لیے پریشان کُن تھا، لیکن میں کسی بری خبر کا احساس نہیں کر پائی تھی، یہاں تک کہ کچھ اچھی ہونے کے بعد ایک شام میں امّ مسطح کے ساتھ قضائے حاجت کے لیے نکلی، ان دنوں ہم لوگ قضائے حاجت کے لیے رات کو نکلا کرتے تھے، ہمارا حال زمانۂ گزشتہ کے عربوں جیسا تھا، ہم اپنے گھروں کے قریب قضائے حاجت کی جگہیں بنانے کو برا سمجھتے تھے، میں اور امّ مسطح نکلیں، ان کا بیٹا مسطح بن اثاثہ بن عبادہ بن عبدالمطلب تھا، میں اور امّ مسطح قضائے حاجت کے بعد اپنے گھر کی طرف لوٹیں، تو امّ مسطح کا پاؤں چادر میں الجھ کر پھسل گیا، انہوں نے کہا: مسطح کا برا ہو، میں نے ان سے کہا: آپ ایک ایسے آدمی کو برا کہہ رہی ہیں جو بدری صحابی ہیں۔ انہوں نے کہا: اے مغفل لڑکی! کیا تم نے ا س کی بات نہیں سنی؟ میں نے کہا: وہ کیا ہے،تو انہوں نے مجھے بہتان تراشوں کی کذب بیانی کی خبر دی، جسے سن کر میری بیماری اور بڑھ گئی، اور جب میں اپنے گھر لوٹی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے اور کہا: تم کیسی ہو؟ میں نے کہا: کیا آپ مجھے اجازت دیتے ہیں کہ میں اپنے ماں باپ کے گھر جاؤں؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہمافرماتی ہیں: میرا مقصد اپنے والدین کے ذریعہ خبر کی تصدیق کرنا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اجازت دے دی، اور میں اپنے ماں باپ کے پاس آئی، اور اپنی والدہ سے کہا: امی جان! لوگ کیا باتیں کررہے ہیں ؟ انہوں نے کہا: بیٹی! پریشان نہ ہو، اللہ کی قسم! جب بھی کسی خوبصورت لڑکی سے اس کا شوہر محبت کرتا ہے، اور اس کی سوکنیں ہوتی ہیں تو سب مل کر اس میں عیب نکالتی ہیں۔ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہماکہتی ہیں: میں نے کہا: سبحان اللہ، تو کیا لوگ اس بارے میں باتیں کرتے رہے ہیں؟ سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہما فرماتی ہیں: میں ساری رات روتی رہی، صبح تک میرے آنسو نہیں رُکے، اور صبح کے بعد بھی روتی رہی۔