کتاب: الصادق الامین - صفحہ 43
ابتدائیہ
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی سیرتِ طیبہ سے متعلق گفتگو، در حقیقت اُس آسمانی رسالت سے متعلق گفتگو ہے جس کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پورے بنی نوعِ انسان کی ہدایت کے لیے اُس وقت بھیجے گئے جب پورا عالمِ انسانیت اپنے تاریک ترین دور سے گزر رہا تھا، بالخصوص وہ عرب قومیں جو اُس وقت جزیرہ نمائے عرب میں رہتی تھیں۔
اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ سیرت سے متعلق گفتگو، اس کی امتیازی خوبیوں کا لائق وفائق بیان، اس کی تابناکیوں کی تصویر کشی، اس کی خصوصیات وامتیازات کی وضاحت، نیز انسانی تاریخ میں عقیدہ ومذہب، عادات واطوار اور اخلاقیات کے باب میں خاتم النّبیین صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اعلیٰ اور نمایاں ترین کردار ادا کیا، اِن تمام اہم امور کی صحیح ترجمانی، کسی بھی مؤلف ومحقق کے لیے اُس وقت تک ممکن نہیں، جب تک وہ اُس عہد کی قوموں کی زندگی پر بالعموم، اور عربوں کی زندگی اور عہد جاہلی میں ان کے مذاہب وعقائد اور اخلاق وعادات پر بالخصوص روشنی نہیں ڈالتا، اور اس تلخ واَلمناک حقیقت کو صفحۂ قرطاس پر نہیں لاتا کہ وہ قومیں پستی اور انحطاط کی انتہا کو پہنچ گئی تھیں، خیر وشر کی تمیز کھو چکی تھیں، اور خودکشی کی راہ پر پڑچکی تھیں۔ باری تعالیٰ نے قرآن کریم میں اُن تمام اقوامِ عرب وغیر عرب کی تصویر کشی کرتے ہوئے سورۃ الروم آیت (41) میں فرمایا ہے:
(("ظَهَرَ الْفَسَادُ فِي الْبَرِّ وَالْبَحْرِ بِمَا كَسَبَتْ أَيْدِي النَّاسِ لِيُذِيقَهُمْ بَعْضَ الَّذِي عَمِلُوا لَعَلَّهُمْ يَرْجِعُونَ))
’’خشکی اور تری میں فساد پھیل گیا ہے ان گناہوں کی وجہ سے جو لوگوں نے کیے ہیں، تاکہ اللہ ان کو ان کی بعض بداعمالیوں کامزا چکھائے، شاید کہ وہ (اپنے رب کی طرف) رجوع کریں۔‘‘
اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کی مبارک زندگی سے متعلق کچھ تحریر کرنے سے پہلے ضروری معلوم ہوا کہ سرزمینِ نبوت، جزیرہ عرب، وہاں کی قوموں، اس کے جغرافیائی محلِ وقوع، سیاسی، اجتماعی، دینی اور دیگر حالات نیز اُس علاقہ کی خصوصیات پر روشنی ڈالوں، اور ایک سرسری نگاہ ان غیر عرب قوموں کے حالاتِ زندگی پر بھی ڈالی جائے جو عرب قوموں کے جوار میں رہتی تھیں، ان کے سیاسی، اجتماعی اور اخلاقی حالات، ان کے مذاہب وادیان، اور عربوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی وضاحت کی جائے۔ اور پھر دلائل وبراہین کی روشنی میں یہ بات بیان کی جائے کہ ان تمام اقوامِ عرب وغیر عرب کو اللہ کی طرف سے بھیجے گئے ایک نبی مرسل کی شدید ترین ضرورت تھی، جو سارے عالم کے لیے رحمت بن کر آئے، انہیں ہلاکت وبربادی سے نکال کر ساحلِ اَمن ونجات پر پہنچائے، یعنی دینِ اسلام سے انہیں روشناس کرائے جس کے سواکہیں بھی ان کے لیے کوئی دینی یا دنیوی خیر وفلاح نہیں۔