کتاب: الصادق الامین - صفحہ 38
پے درپے کامیابیاں عطا کیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھوں علم وعرفان کے سلسبیل و کوثر جاری ہوئے، فضائل واَخلاقِ حسنہ عام ہوئے ، ظلمتیں دور ہوئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بکریوں ، بھیڑوں اور اونٹوں کے چرواہوں ، اور بکھرے بادیہ نشینوں کو جوڑ کر کلمۂ توحید کی بنیاد پر ایک عظیم امت بنائی، اور پھر اس وحدت میں عالمی روح پھونکنے کے لیے اس دعوتِ توحید کو سارے عالم کے سامنے پیش کیا جس کی ترجمانی خود اللہ عزوجل نے قرآنِ کریم میں فرمائی ہے: ((وَمَا أَرْسَلْنَاكَ إِلَّا كَافَّةً لِّلنَّاسِ بَشِيرًا وَنَذِيرًا)) [سبأ:28] ’’اور ہم نے آپ کو تمام نوع انسانی کے لیے خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بناکر بھیجاہے۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قرآن وسنت کی روشنی میں ایک ایسی عظیم اسلامی تہذیب وثقافت کو وجود بخشا جس کی بنیاد دینِ اسلام کے پاکیزہ اصولوں اور اونچے اَخلاق وکردار پر رکھی، اور انسانوں کی قدرومنزلت کو بلند کیا، اور بالخصوص عورت کو تو بہت ہی اُونچامقام عطا کیا جو زمانۂ جاہلیت میں ایک حقیر ترین مخلوق سمجھی جاتی تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبائلی، خاندانی، علاقائی، اور رنگ ونسل کی تمام عصبیتوں کو ختم کرکے مساواتِ انسانی کی بنیاد رکھی، اور بندوں کو اللہ سے ، اور قوموں کو قوموں سے قریب کیا، اور دلوں اور ذہنوں کو ایمان وصداقت اور قرآن کے نور سے منور کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابۂ کرام کی تربیت صداقت اور اِخلاص کی بنیاد پر کی، اور ان کے دلوں کو محبت ومودّت کے جذبات سے سرشار کیا، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اُن کے جذبات اور مزاجوں میں یگانگت اور اُن کے فکر ونظر میں مشابہت ومطابقت پیدا ہوئی اورپھر وہ دینِ اسلام کے کامیاب ترین داعی بن کر پوری دنیا میں پھیل گئے، اور بھٹکتی انسانیت کو راہِ راست پر لاکھڑا کیا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی شخصیت کی انہی بیش بہا خوبیوں ، اس کی جامعیت اور اس کی اتھاہ گہرائی او رگیرائی کے سبب بڑے بڑے عظیم مسلم اور غیر مسلم مؤلفین نے، جنہوں نے اس بحرِ بے کراں کی شناوری کی ہے ، ا عتراف کیا ہے کہ سیرت ِ نبویہ کا احاطہ اور اُس کی مکمل تصویر کشی ناممکن ہے ، اور یہ کہ ہر مؤلفِ سیرتِ نبویہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سچی محبت کی بنیاد پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ زندگی کی تصویر کشی کی مخلصانہ اور سنجیدہ کوشش کی ہے۔ 7- کئی سال سے اس بندۂ عاجز کے دل میں یہ تمنا کروٹ لے رہی تھی کہ میں بھی عربی اور اردو زبانوں میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ طیبہ پر کتاب لکھوں ، لیکن اس کام کی عظمت کے تصور سے ہی دل پر ہر بار ہیبت طاری ہوجاتی ، اور قلم رُک جاتا تھا۔ بالآخرتقریباً دو ڈھائی سال قبل اللہ نے شرحِ صدر کیا، اور کام شروع کردیا، اِس امید میں کہ باغِ سیرتِ نبویہ کے تروتازہ پھولوں اور عطر بیز کلیوں سے ایک خوشنما اور روح ِمؤمن کو حیاتِ جاوداں بخشنے والا گل دستہ تیار کروں جسے قیامت کے دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی جناب میں پیش کرکے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شفاعت اور جنت میں ربّ کریم کے فضل وکرم سے آپ کی قربت کا حق دار بن سکوں۔ میں نے اپنی اس متواضع کوشش میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے بہت سے گوشوں کو اُجاگر کرتے وقت خوب غور وفکر سے کام لیا ہے، اور اللہ کی توفیق سے ایسی شمعیں روشن کرنے میں کامیاب رہاہوں جو اللہ کے نیک بندوں کے لیے علم