کتاب: الصادق الامین - صفحہ 37
((إِنَّ الدِّينَ عِندَ اللَّـهِ الْإِسْلَامُ )) [آلِ عمران:19]
’’بے شک دینِ برحق اللہ کے نزدیک اسلام ہے۔‘‘
اور فرمایا:
((وَمَن يَبْتَغِ غَيْرَ الْإِسْلَامِ دِينًا فَلَن يُقْبَلَ مِنْهُ)) [آلِ عمران:85]
’’جو شخص اسلام کے علاوہ کوئی دوسرا دین چاہے گا، تو اس کی طرف سے قبول نہیں کیا جائے گا۔‘‘
اور اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں اُس وقت مبعوث فرمایا جب پوری دنیائے انسانیت کفرو شرک، فسق وفجور اور اَخلاقی جرائم ومعاصی کے بوجھ تلے کراہ رہی تھی، اور جہنم کی کھائی کے آخری دہانہ پر کھڑی تھی،اور قریب تھا کہ اُس میں گِر کر ہلاک ہوجاتی ۔
بلادِ عربیہ کے چپہ چپہ میں بُت پرستی پھیلی ہوئی تھی، یہاں کے لوگ درخت، پتھر، شمس وقمر، پہاڑ اور دریا اور اسی قسم کے خود ساختہ بے شمار معبودوں کی پرستش کرتے تھے۔ قوی ضعیف کو قتل کرتا تھا، طاقتور قبیلہ کمزور قبیلہ کو لوٹ لیتا تھا، عورتیں اُچک لی جاتی تھیں اور بیٹیاں زندہ در گور کردی جاتی تھیں، بہت سے عرب اپنے باپ کی بیویوں کو اپنی باندیاں بنالیتے تھے اور ہر قسم کی اخلاقی برائیوں میں اپنی ٹھوڑیوں تک ڈوبے ہوئے تھے۔
کچھ ایسا ہی حال یہود ونصاریٰ کا تھا، انہوں نے اپنے دین کو بدل دیا تھا۔ نصاریٰ کا گمان تھا کہ عیسیٰ علیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ، اور عرب نصاریٰ کا عقیدہ تھا کہ مریم علیہا السلام اللہ کی بیوی، اور فرشتے اُس کی بیٹیاں ہیں۔ اور یہود کہتے تھے کہ عزیرعلیہ السلام اللہ کے بیٹے ہیں ، اور عرب یہود کہتے تھے کہ وہ اللہ کے بیٹے اور اس کے محبوب ہیں، اور اُن کی عورتیں اللہ کی بیٹیاں اور اس کی محبوب ہیں۔
اور آتش پرست مجوس اپنی بیٹیوں اور بہنوں کو گھروں میں بند کردیتے تھے۔اور یہ سارے اَدیان ومذاہب اور باطل اَفکار وعقائد والے جزیرۂ عرب میں اُس وقت موجود تھے۔ اِس طرح یہ خِطّہ جو ایشیاء ،یورپ اور افریقہ کے بیچ میں واقع ہے، تمام باطل مذاہب واَدیان کا مرکز بن گیا تھا۔ اس لیے یہ بات زیادہ قرینِ قیاس تھی کہ دنیا کے اسی مرکزی علاقہ میں وہ نبی مبعوث ہوں جن کا دین آخری دین ہوگا، اور یہیں سے وہ آوازِ حق سارے عالم میں پہنچائی جائے، اور اس کے لیے مکہ کو ہی مرکز اس لیے بننا چاہئے تھا کہ اسے ابراہیم علیہ السلام کے زمانہ سے ہی تمام عربوں کے نزدیک مرکزی حیثیت حاصل تھی، خانہ ٔ کعبہ سب کی نظر میں بالاتفاق مقدس تھا۔ سبھی دور دور کے علاقوں سے حج اور طوافِ بیت اللہ کے لیے یہاں آتے تھے، اور اہلِ قریش کی مذہبی سیادت وبرتری کو تسلیم کرتے تھے، اور دنیاوی طور پر بھی مکہ کی حیثیت ایک عالمی تجارتی منڈی کی ہوگئی تھی۔ اس لیے اُس رسولِ آخرالزمان صلی اللہ علیہ وسلم کو اہلِ قریش اور بالخصوص ہاشمی خاندان سے ہونا چاہئے تھا جس خاندان کی سیادت وقیادت کو سب نے تسلیم کرلیا تھا۔
6- نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آخری آسمانی پیغام کو اَحسن طریقہ سے عربوں اور پھر تمام عالم تک پہنچایا، اور اس راہ میں ایسے مصائب و آلام کا سامنا کرنا پڑاجن کے تصور سے عام آدمی کا پتّہ پانی ہوجاتا ہے، نتیجتاً اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو