کتاب: الصادق الامین - صفحہ 188
کی۔ طفیل رضی اللہ عنہ دوبارہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی قوم پر بد دعا کرنے کی درخواست کی، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے ہدایت کی دعا کی، او رطفیل سے کہا:تم اپنی قوم کے پاس لوٹ جاؤ، انہیں پھر دینِ اسلام کی طرف بلاؤ اور ان کے ساتھ نرمی سے پیش آؤ، طفیل رضی اللہ عنہ لوٹ کر گئے اور لوگوں کو اسلام کی دعوت دیتے رہے، یہاں تک کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم ہجرت کرکے مدینہ پہنچ گئے اور بدر، اُحداور خندق کے غزوات گزر گئے، پھر تیسری بار وہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس قبیلۂ دوس کے ستر یا اسی مسلمانوں کے ساتھ اُس وقت گئے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر میں تھے۔ [1]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کشتی رکانہ پہلوان کے ساتھ :
دعوتِ اسلامیہ کے انہی مشکل ایام میں ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رکانہ بن عبدیزیدبن ہاشم بن مطلب بن عبدمناف سے کہیں تنہائی میں ملاقات ہوگئی، جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بڑا شدید مخالف اور قریش کا سب سے طاقتور آدمی تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اے رُکانہ !کیا تم اللہ سے نہیں ڈروگے اور میری دعوت کو قبول نہیں کروگے؟ تو اس نے کہا: اگر مجھے یقین ہوجاتا کہ تمہاری بات سچ ہے تو میں تمہاری پیروی کرتا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے کہا: اگر میں تمہیں پچھاڑدوں تو کیا تمہیں یقین ہوجائے گا کہ میری بات حق ہے۔ اس نے کہا: ہاں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: پھر آگے بڑھو اور مجھ سے کُشتی لڑو، چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچھاڑ دیا اور اسے زمین پر دے مارا، اور اسے بالکل بے بس کردیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پھر دوبارہ پچھاڑ دیا۔
ابوبکر شافعی رحمۃ اللہ علیہ نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے ایک عمدہ سند کے ذریعہ روایت کی ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس سے کُشتی لڑی تھی اس کا نام یزید بن رُکانہ تھا۔اسے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار پچھاڑا، اور ہر بار ایک سو بکریوں کے عوض۔جب تیسری بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے پچھاڑا تو اس نے کہا : اے محمد! تم سے پہلے آج تک کسی نے میری پیٹھ زمین سے نہیں لگائی تھی، اور تم سے زیادہ کوئی میرے نزدیک مبغوض نہیں تھا، اور اب میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ تم اللہ کے رسول ہو، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس سے الگ ہوگئے اور اس کی بکریاں اسے واپس کر دیں۔ [2]اس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اہلِ قریش کے ایمان لانے کی کیسی شدید تمنا رکھتے تھے، اور انہیں اپنے نبی ہونے کا یقین دلانے کے لیے کس طرح ہرممکن طریقہ اختیار کرتے تھے۔ اللہ کا درود وسلام ہو آپؐ پر جب تک شمس و قمر گردش میں رہیں۔
صدائے حق کو خاموش کرنے کی انتہائی کوشش:
ابن اسحاق کہتے ہیں : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنی قوم کے سامنے دعوتِ حق پیش کی تو آپ کی قوم کچھ زیادہ آپ سے دور نہیں ہوئی اور آپ کے خلاف کوئی سخت رویہ اختیار نہیں کیا، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے معبودوں کی عیوب جوئی کرنے لگے، تو انہوں نے اس کا بہت زیادہ بُرا منایا، اور آپ کی مخالفت وعداوت پر متفق ہوکر اپنے معبودوں اور اپنی عادات وتقالید کے خلاف اُٹھی ہوئی شورش کو ختم کرنے کی ٹھان لی، اور اس دعوت کو ہمیشہ کے لیے خاموش کر دینا چاہا،جو ان کے
[1] ۔ سیرۃ ابن ہشام:1/382-385،إتحاف الوریٰ:1/253-256۔
[2] ۔ صحیح السیرۃ النبویۃ، البانی:ص/217، السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر:2/82،83۔