کتاب: الصادق الامین - صفحہ 187
نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بازار ذوالمجازمیں لوگوں کے گھروں میں جاکر انہیں اسلام کی طرف بلاتے دیکھا ہے، اورآپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ایک بھینگا آدمی لگا رہتا جس کے دونوں رخسار سُرخ ہوتے ، وہ کہتا: لوگو! دیکھو، یہ آدمی تمہیں تمہارے آباء واجداد کے دین کے بارے میں دھوکے میں نہ ڈال دے، میں نے پوچھا: یہ کون ہے؟ تو مجھے بتایا گیا : یہ ابولہب ہے۔[1] اسی طرح ایک دوسری روایت میں ہے کہ ابو جہل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگا رہتا تھا، اور لوگوں سے اسی طرح کی بات کہتا تھا۔ لیکن اللہ تعالیٰ نے جس بات کے ہونے کا فیصلہ کردیا تھا، اسے بہرحال ہونا تھا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر تمام بلادِ عرب میں پھیل گیا ، اور موسمِ حج اور دیگر ایام میں مکہ آنے والے لوگ جوق درجوق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آکر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے لگے، اور اللہ کے دین میں داخل ہونے لگے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان بے شک سچا ہے: ((يُرِيدُونَ لِيُطْفِئُوا نُورَ اللَّـهِ بِأَفْوَاهِهِمْ وَاللَّـهُ مُتِمُّ نُورِهِ وَلَوْ كَرِهَ الْكَافِرُونَ)) [الصف:8] ’’کفار اللہ کے نور کو اپنے منہ سے پھونک مارکر بجھاناچاہتے ہیں، اور اللہ اپنے نور کو پورا کرنا چاہتاہے، چاہے کفار کو یہ بات کتنی ہی ناگوار گزرے۔‘‘ طفیل بن عمرو دوسی رضی اللہ عنہ کا اسلام: اُن دِنوں مکہ آنے والوں میں طفیل بن عمرو دوسی بھی تھے، جو ایک شاعر اور عقل مندو شریف آدمی تھے، انہیں دیکھ کر قریش کے کچھ لوگ ان کے پاس گئے ،اور ان سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں کہا کہ وہ جادو گر ہے اور اس کی بات جادواثر ہے جس کے ذریعے وہ آدمی اور اس کے بیٹے، آدمی اور اس کے بھائی اور آدمی اور اس کی بیوی کے درمیان جدائی پیدا کر دیتا ہے ، اس لیے آپ اس سے بات نہ کیجیے اور نہ ہی اس کی کوئی بات سنیے۔ یہ سن کر طفیل رضی اللہ عنہ نے مسجد حرام میں داخل ہونے سے پہلے اپنے کان میں روئی ڈال لی، تاکہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا کلام نہ سن سکیں ، وہاں انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کعبہ کے پاس کھڑے ہوکر نماز پڑھتے دیکھا۔ طفیل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں :’’ میں ان کے قریب کھڑا ہوگیا ، تو گویا اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ میں ان کی بات ضرور سنوں ، چنانچہ میں نے ایک اچھی بات سُنی اور فیصلہ کرلیا کہ میں ان کی بات ضرور سنوں گا، اس لیے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسجد سے نکلے تو میں ان کے پیچھے لگ گیا، اور ان کے ساتھ ان کے گھر میں داخل ہوگیا، اور کہا: اے محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )! آپ کی قوم نے مجھ سے ایسا اور ایسا کہا ہے، اور اللہ کی قسم! وہ لوگ مجھے ڈراتے رہے ، یہاں تک کہ میں نے روئی سے اپنا کان بند کرلیا، تاکہ آپ کی بات نہ سن سکوں ، لیکن اللہ نے چاہا کہ میں ضرور سنوں۔ چنانچہ میں نے ایک اچھی بات سُنی ہے، تو آپ اپنا پیغام مجھے سنائیے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے اسلام کی دعوت دی اور قرآن کی تلاوت کی، تو مجھے ایسا لگا کہ میں نے( اللہ کی قسم!) اس سے اچھی بات کبھی نہیں سنی تھی اور اس سے اچھا پیغام مجھے کبھی نہیں دیا گیا ، اس لیے میں اسلام لے آیا اور شہادت کا کلمہ پڑھ لیا۔‘‘ پھر وہ اپنی قوم کے پاس لوٹ گئے، اور اپنے باپ کو اسلام کی دعوت دی، تو انہوں نے اسے قبول کرلیا، پھر انہو ں نے اپنی بیوی کودعوت دی، تو اس نے بھی قبول کرلیا، پھر اپنے پورے قبیلۂ دوس کو دعوت دی تو ان لوگوں نے قبول کرنے میں دیر
[1] ۔ السیرۃ النبویۃ، ابن کثیر:1/462۔