کتاب: الصادق الامین - صفحہ 186
محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی بات میں ایک عجیب سی مٹھاس ہے، اور اس کی مثال تو کھجور کی درخت کی ہے جس کی جڑیں زمین میں گہری ہوتی ہے اور جس کی شاخیں سرسبز اور لہلہاتی ہوتی ہیں۔ تم ان باتوں میں سے کچھ بھی کہوگے تو لوگ فوراً سمجھ جائیں گے کہ یہ جھوٹ ہے ۔ پھر بھی ان میں سب سے مناسب اُسے جادوگر ہی کہنا ہے ۔اس لیے کہ اس نے ایک ایسا کلام پیش کیا ہے جو جادو کی طرح آدمی اور ا س کے باپ، آدمی اور اس کے بھائی، آدمی اور اس کی بیوی اور آدمی اور اس کے قبیلے کے درمیا ن تفریق کردیتا ہے۔ چنانچہ کفارِ مکہ لوگوں کی راہوں میں بیٹھنے لگے اور ہر آنے والے کو آپؐ کی بات سننے سے ڈرانے لگے، اور اُن سے کہتے تھے کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جادوگر ہے، جو اپنے جادوکے ذریعہ لوگوں کے درمیان تفریق پیدا کر رہا ہے۔ اسی واقعہ کے بعد اللہ تعالیٰ نے ولید بن مغیرہ کے بارے میں مندرجہ ذیل آیتیں نازل کیں: ((ذَرْنِي وَمَنْ خَلَقْتُ وَحِيدًا ﴿11﴾ وَجَعَلْتُ لَهُ مَالًا مَّمْدُودًا ﴿12﴾ وَبَنِينَ شُهُودًا ﴿13﴾ وَمَهَّدتُّ لَهُ تَمْهِيدًا ﴿14﴾ ثُمَّ يَطْمَعُ أَنْ أَزِيدَ ﴿15﴾ كَلَّا ۖ إِنَّهُ كَانَ لِآيَاتِنَا عَنِيدًا ﴿16﴾ سَأُرْهِقُهُ صَعُودًا ﴿17﴾إِنَّهُ فَكَّرَ وَقَدَّرَ ﴿18﴾ فَقُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿19﴾ ثُمَّ قُتِلَ كَيْفَ قَدَّرَ ﴿20﴾ ثُمَّ نَظَرَ ﴿21﴾ ثُمَّ عَبَسَ وَبَسَرَ ﴿22﴾ ثُمَّ أَدْبَرَ وَاسْتَكْبَرَ ﴿23﴾ فَقَالَ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا سِحْرٌ يُؤْثَرُ ﴿24﴾ إِنْ هَـٰذَا إِلَّا قَوْلُ الْبَشَرِ ﴿25﴾ سَأُصْلِيهِ سَقَرَ ﴿26﴾ وَمَا أَدْرَاكَ مَا سَقَرُ ﴿27﴾ لَا تُبْقِي وَلَا تَذَرُ ﴿28﴾ لَوَّاحَةٌ لِّلْبَشَرِ ﴿29﴾ عَلَيْهَا تِسْعَةَ عَشَرَ )) [المدثر:11-30] ’’آپ مجھے اور اس آدمی کو چھوڑدیجیے جسے میں نے اکیلا پیدا کیا ہے، اور میں نے اسے کافی مال دیا ہے، اور لڑکے دیے ہیں جو ہر وقت اس کے پاس موجود رہتے ہیں، اور میں نے اس کے لیے سیادت کی راہ ہموار کردی ہے ،پھر وہ لالچ کرتا ہے کہ میں اُسے زیادہ دوں، ایسا ہرگز نہیں ہوگا، وہ تو ہماری آیتوں کا مخالف ہے، میں عنقریب اسے ایک بڑی چڑھائی چڑھاؤں گا، اس نے غور کیا اور ایک بات (دل میں) طے کرلی، پس وہ ہلاک ہو، اس نے کیسی بات سوچی، وہ پھر ہلاک ہو، اس نے کیسی بات سوچی،پھر اُس نے دیکھا ، پھر اس نے پیشانی سکیڑی اور بُرا سا منہ بنایا، پھر اُس نے پیٹھ پھیر لی اور تکبر کیا،پھر کہنے لگا، یہ محض ایک جادو ہے جو پہلے سے چلا آرہا ہے، یہ محض کسی انسان کا قول ہے ، میں عنقریب اسے جہنم میں ڈال دوں گا، اور آپ کو کیا معلوم کہ جہنم کیا ہے، نہ وہ کسی چیز کو باقی رکھے گی نہ چھوڑے گی، وہ تو کھال کو جلا ڈالنے والی ہوگی، اس پر انیس فرشتے مقرر ہیں۔‘‘ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بعد جب موسمِ حج اور عُکاظ، اور مِجنّہ اور ذوالمجازکے بازاروں میں لوگوں سے ملاقات کرتے ، اور ان کے سامنے اسلام کی دعوت پیش کرتے تو اشرارِ قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے لگے رہتے ،اور خاص طور پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ملعون چچا ابولہب اور ابو جہل ،یہ اشرار لوگوں سے کہتے: تم لوگ اِس کی بات نہ سنو اور اس کی پیروی نہ کرو، یہ تو بے دین اور جھوٹا ہے، اور یہ بھی کہتے: لوگو! یہ تمہیں حکم دیتا ہے کہ تم لوگ اپنے آباء واجداد کے دین کو چھوڑدو، اس جھوٹے کی بات نہ سنو، تو بہت سے لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بُری طرح پیش آتے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچاتے۔ امام احمد رحمہ اللہ نے ابو زناد سے اور بیہقی رحمہ اللہ نے ربیعہ دیلمی سے روایت کی ہے ، ان میں سے ہر ایک کہتے ہیں : میں