کتاب: الصادق الامین - صفحہ 185
کرتے دیکھ لیا ، تو اسے پکڑا ،اور اس گندگی کو اٹھاکر اس کے سرپر ڈال دیا۔ [1] دعوت الی اللہ کا اعلان عام: سورۃ الشعراء کی آیت(214) ( (وَأَنذِرْ عَشِيرَتَكَ الْأَقْرَبِينَ))’’اور آپ اپنے قریبی رشتہ داروں کو ڈرائیے۔‘‘ اور سورۃ الحجر کی آیت(94) ((فَاصْدَعْ بِمَا تُؤْمَرُ وَأَعْرِضْ عَنِ الْمُشْرِكِينَ))’’پس آپ کو جو حکم کیا جارہا ہے اسے کھول کر بیان کردیجیے، اور مشرکین کی پروا نہ کیجیے۔‘‘…جب نازل ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے سامنے اسلام کی دعوت علانیہ پیش کرنے لگے، اور امت کی خیر خواہی اور اُس تک اللہ کی طرف سے پیغام رسانی کے لیے ہر ممکن کوشش کرنے لگے ،اور اس کام میں اس طرح ہمہ تن وہوش لگ گئے کہ کوئی چیز آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کام سے روک نہیں سکی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوگوں کے پاس ان کی مجلسوں اور محفلوں میں جاتے، حج کے زمانے میں وفودِ عرب سے ملتے اور عُکاظ، مِجنّہ اور ذوالمجازکے بازاروں میں لوگوں سے ملاقات کرتے اور ہر آزاد وغلام، کمزور و قوی اور مالدار وفقیر کو اسلام کی دعوت دیتے، اور ایامِ حج میں ایک ایک قبیلے کے خیمے میں پہنچتے، انہیں اللہ کی طرف بلاتے اور ان سے اپنی تائید ونصرت طلب کرتے ، تاکہ پوری قوت کے آپ ساتھ اپنے رب کا پیغام دنیا والوں تک پہنچاسکیں، اور اس کے بدلے آپؐ ان سے جنت کا وعدہ کرتے اور کہتے: اے لوگو!کہو لاإلہ إلا اللّٰہ، تم کامیاب ہوجاؤگے، اور اس کلمہ کے ذریعہ عرب وعجم تمہارے زیر سیادت آجائیں گے۔ وفودِ حجاج کو کہنا کہ محمد( صلی اللہ علیہ وسلم ) جادوگر ہے: جب اہلِ قریش نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوتی کاموں کو تیز تر ہوتے دیکھا، اور دیکھا کہ آپ تو ہر آنے والے، حج وعمرہ کرنے والے، اور عرب کے بازاروں میں شرکت کرنے والے ہر آدمی کو علی الاعلان اسلام کی طرف بلا رہے ہیں، اور اس راہ میں کسی کی پروا نہیں کرتے ہیں، اور آپ کی دعوت رفتہ رفتہ مکہ سے باہر قبائل عرب میں پھیلنے لگی ہے، اور ان کا مذہبی وجود خطرے میں پڑگیا ہے جس کی بنیاد شرک باللہ اور بُت پرستی پرہے ، بلکہ ان کے خیال میں ان کا وجود ہی خطرے میں پڑگیا ہے ، تو انہوں نے ایک دن ولید بن مغیرہ کے ساتھ اجتماع کیا جو ان میں سب سے زیادہ عقل مند اور معاملہ شناس مانا جاتا تھا، اور اس سے کہا کہ وہ انہیں کوئی ایسی بات بتائے جسے وہ لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں مکہ آنے والے ہر زائر ومعتمر اور عرب کے بازاروں میں شریک ہونے والے ہر عربی سے کہیں، تو ولید بن مغیرہ نے ان سے کہا: پہلے تم کہو، تاکہ میں سنوں۔ انہو ں نے کہا: ہم اُسے کاہن کہیں گے، اس نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم وہ کاہن نہیں ہے۔ ہم نے کاہنوں کو دیکھا ہے اور ان کی باتیں سُنی ہیں۔ لوگوں نے کہا: ہم اُسے پاگل کہیں گے۔ اس نے کہا: وہ پاگل نہیں ہے، ہم نے جنون اور اس سے پیدا ہونے والے حالات اور وسوسوں کو قریب سے دیکھا ہے ۔ لوگوں نے کہا: ہم اُسے شاعر کہیں گے۔ اس نے کہا: وہ شاعر بھی نہیں ہے، ہم نے شعر کے تمام اقسام کو خوب اچھی طرح جانا اور پہچانا ہے، اس کا کلام شعر نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا: ہم اُسے جادو گر کہیں گے۔ اس نے کہا: وہ جادو گر بھی نہیں ہے، ہم نے بہت سے جادوگروں اور ان کی جادوگری کو دیکھا ہے ۔ محمدؐ کی بات یقینا جادوگروں کی بات نہیں ہے۔ لوگوں نے کہا: تو پھر اے عبدشمس! ہم اس کے بارے میں کیا کہیں؟ اس نے کہا : اللہ کی قسم!
[1] ۔ دیکھئے: اتحاف الوریٰ:1/206،207۔