کتاب: الصادق الامین - صفحہ 184
یہاں تک کہ میں اُسی پر مرجاؤں جس پر عبدالمطلب کی موت ہوئی تھی۔
ابو لہب کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی نرم بات کہی، ابو لہب نے کہا: اے ابنائے عبدالمطلب! اللہ کی قسم! یہ سب سے بڑی شومی قسمت ہے ، اسے ایسا کرنے سے روک دو، قبل اس کے کہ تمہارے علاوہ دوسرے لوگ اس پر اپنا ہاتھ ڈالیں، اس وقت اگر تم لوگ اسے ان کے حوالے کردوگے تو ذلیل ہوجاؤگے، اور اگر ان کے خلاف اس کا دفاع کروں گے تو قتل کردیے جاؤگے۔ ابو طالب نے کہا: ہم جب تک زندہ رہیں گے اس کی حمایت کرتے رہیں گے، اور صفیہ بنت عبدالمطلب نے بھی اچھی بات کہی، اور ابو لہب کی بات کا بُرا منایا۔
متعدد روایتوں میں آیا ہے کہ ابولہب نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سننے کے بعد کہا: کیا اسی لیے تم نے ہمیں جمع کیا ہے؟ پورا دن تم پر بربادی اُترتی رہے، تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:(( تَبَّتْ يَدَا أَبِي لَهَبٍ وَتَبَّ))
یہ سُن کر بھینگی عورت امّ جمیل بنت حرب ابو لہب کی بیوی مٹھی بھر کنکریاں لیے آگے بڑھی، تاکہ اُسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چہرۂ مبارک پر مارے اور آکر ابو بکر رضی اللہ عنہ کے پاس کھڑی ہوگئی اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس نے نہیں دیکھا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کی بصارت کو اُچک لیا اور اُسے اس کے غیظ وغضب کے ساتھ اپنے رسول کی طرف سے پھیر دیا۔ گھر جاکر اس نے اپنے شوہر ابولہب کے ساتھ مل کر اپنے دونوں بیٹوں عُتبہ اور عُتیبہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں بیٹیوں رقیہ اور امّ کلثوم رضی اللہ عنھما کو طلاق دے دینے کا حکم دیا، چنانچہ عُتبہ نے رُقیہ رضی اللہ عنہ کو اور عُتیبہ نے امّ کلثوم رضی اللہ عنہ کو طلاق دے دی، اور عُتیبہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: میں نے تمہارے دین کا انکار کر دیا اور تمہاری بیٹی کو چھوڑ دیا، پھر اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دست درازی کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قمیص پھاڑدی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: میں اللہ سے یہ سوال کرتا ہوں کہ وہ تم پراپنے کتے کو مسلط کردے، چنانچہ ویسا ہی ہوا جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہا تھا، بلادِ شام میں ایک شیر نے اسے چیر پھاڑ کر ختم کردیا۔ [1]
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت پہنچانے میں ابو لہب بڑھ چڑھ کر حصہ لیتا تھا، اور ابو جہل، أسود بن عبدیغوث، حارث بن قیس سہمی، ولید بن مغیرہ، عاص بن وائل سہمی، نضر بن حارث، زہیر بن ابو اُمیہ ، عاص بن سعید بن عاص، خلف کے دونوں لڑکے اُمیہ اور اُبی، اور ابو قیس بن فاکہی بن مغیرہ وغیرہم کے ساتھ مل کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذاء پہنچانے کی نت نئی تدبیریں کیا کرتا تھا، اور ان میں سب سے زیادہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت کرنے والے اشخاص ابوجہل، ابولہب اور عقبہ بن ابی معیط تھے۔اور ابو لہب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑی پُرانی عداوت اور بغض رکھتا تھا، اس لیے کہ ایک بار اس کے اور ابوطالب کے درمیان سخت کلامی ہوگئی اور ابولہب ابوطالب کو پچھاڑ کر ان کے سینے پر بیٹھ گیا، اور ان کے چہرے پرمکے اور گھونسے برسانے لگا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ابولہب کی یہ حرکت دیکھی نہ گئی اور اُسے پکڑ کر زمین پر دے مارا، اور ابوطالب اس کے سینے پر بیٹھ گئے اور اُس کے چہرے پر ضربیں لگانے لگے، یہاں تک کہ لوگوں نے دونوں کو الگ کیا۔ ابو لہب نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: یہ تمہارا چچا ہے اور میں بھی تمہارا چچا ہوں ، پھر تم نے میرے ساتھ ایسا برتاؤ کیوں کیا؟ اللہ کی قسم ! میرا دل تم سے کبھی محبت نہیں کرے گا، اور اس کے بعد وہ بدبخت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دروازے پر کوڑا کرکٹ اور گندی چیزیں ڈالنے لگا، ایک بار حمزہ رضی اللہ عنہ نے اُسے ایسا
[1] ۔ دیکھئے: دلائل البیہقی:2/181، السیرۃ النبویہ، ابن کثیر:1/455، الوفائ:1/292 ۔