کتاب: الصادق الامین - صفحہ 183
تمہیں اللہ کے عذ1ب سے نہیں بچاسکتا، اے ابنائے عبدمناف! میں تمہیں اللہ کے عذ1ب سے نہیں بچاسکتا۔ اے عباس بن عبدالمطلب! میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اے صفیہ ! (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھی) میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکتا۔ اے فاطمہ بنت محمد! تم میرے مال میں سے جو چاہو مانگ لو، میں تمہیں اللہ کے عذاب سے نہیں بچاسکوں گا۔ [1]
تمام تاریخی مصادر ومراجع میں یہ بات مذکور ہے کہ جب سورۃ الشعراء کی یہ آیت نازل ہوئی تومعاملہ آپ کے لیے شدید ترہوگیا ، اور پریشان ہوکر اپنے گھر میں بیٹھ گئے ، لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پھوپھیوں نے آپ کی ہمت افزائی کی، اور آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق کرگزرنے پر آمادہ کیا، چنانچہ جب صبح ہوئی ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنائے عبدالمطلب کو بلا بھیجا اور ان کے ساتھ مطلب بن عبدمناف کے بھی کچھ لڑکے آئے ، سب کی تعداد پینتالیس تھی، ابو لہب نے جلدی میں کہا کہ یہ ہیں تمہارے چچا لوگ اور ان کے لڑکے، جو چاہو ان سے کہو، لیکن بے دینی کو چھوڑ دو اور جان لوکہ تمہاری قوم میں سارے عرب سے مقابلہ کرنے کی طاقت نہیں ہے ، اور تمہارے خاندان والوں کے لیے تمہیں پکڑ کر محبوس کردینا اس سے زیادہ آسان ہے کہ تمام خاندان ہائے قریش اور قبائلِ عرب تمہارے خلاف کو دپڑیں،اے میرے بھتیجے! میں نے تم سے پہلے کوئی ایسا آدمی نہیں دیکھا جو اپنے خاندان اور اپنی قوم کے لیے اس سے بڑا شر لایا ہو جو تم لائے ہو۔
یہ سُن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے اور اس مجلس میں کوئی بات نہیں کی ، کئی دنوں تک آپ صلی اللہ علیہ وسلم مغموم ومہموم رہے، اس لیے کہ ابولہب کی بات آپ پر بہت گراں گزری تھی،پھر ایک دن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبریل علیہ السلام آئے اور آپ کو اللہ کے حکم کے مطابق کر گزرنے کا حکم دیا اور آپ کی ہمت افزائی کی ، تو آپ نے ان سب کو دوبارہ جمع کیا، اور فرمایا: ((الحمد للّٰہِ ، احمدہ واستعینہ ، وأومن بہ وأتوکل علیہ ، وأشہد أن لا إلہ إلا اللّٰہ وحدہ لا شریک لہ۔))پھر فرمایا: بے شک قائد اپنے گھر والوں سے جھوٹ نہیں بولتا، اگر میں تمام لوگوں سے جھوٹ بولوں تب بھی تم لوگوں سے جھوٹ نہیں بولوں گا، اور اگر میں تمام لوگوں کو دھوکادوں تب بھی تم لوگوں کو دھوکا نہیں دوں گا۔ اس اللہ کی قسم جس کے سوا کوئی معبود نہیں !بے شک میں اللہ کا رسول ہوں ، خاص طور پر تم لوگوں کے لیے اور عام طور پر تمام لوگوں کے لیے ۔ اللہ کی قسم! تم سب لوگ ویسے ہی مرجاؤگے جیسے سوتے ہو اور ویسے ہی دوبارہ اٹھائے جاؤگے جیسے تم لوگ جاگتے ہو۔ اور تم سے تمہارے کیے کا حساب لیا جائے گا ، اور تمہیں اچھے کا م کا بدلہ اچھا اور بُرے کام کا بدلہ بُرا دیا جائے گا۔اور وہ یا تو ابدی جنت ہوگی یا ابدی عذابِ نار، اور تم لوگ سب سے پہلے ہو جنہیں میں ڈرا رہا ہوں۔
ابو طالب نے کہا: ہمارے لیے یہ بات سب سے پسندیدہ ہے کہ ہم تمہاری مدد کریں اور تمہارا ساتھ دیں ، اور یہ کہ ہم تمہاری نصیحت کو قبول کریں ، اور میں ان میں سے ایک ہوں ، اور اللہ کی قسم ! میں ان سب سے زیادہ اس کام کے لیے تیزگام ہوں جو تمہیں پسند ہے، تمہیں جس کام کا حکم دیا گیا ہے ، اسے کر گزرو۔ اللہ کی قسم! میں ہر لمحہ اور ہر حال میں تمہاری حفاظت کروں گا، اور تمہارا دفاع کروں گا، لیکن میں دیکھ رہا ہوں کہ میرا نفس عبدالمطلب کے دین کو چھوڑنے کے لیے تیار نہیں ہے،
[1] ۔ صحیح البخاری: حدیث(4771)، صحیح مسلم:حدیث(204)، سنن الترمذی:حدیث(3185)، سنن النسائی: حدیث (3624، 3625) مسند احمد2/333 اور 519۔