کتاب: الصادق الامین - صفحہ 181
گئے،درآنحالیکہ وہ انہیں عذابِ الٰہی سے ڈرانے والے تھے، انہوں نے کہا: اے ہماری قوم! ہم نے ایک کتاب سنی ہے جو موسیٰ کے بعد نازل کی گئی ہے، جو گزشتہ کتابوں کی تصدیق کرنے والی ہے، جو دینِ برحق اور سیدھی راہ کی طرف رہنمائی کرتی ہے، اے ہماری قوم! اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول کرو، اور اُس پر ایمان لاؤ، اللہ تمہارے گناہوں کو معاف کردے گا، اور دردناک عذاب سے تمہیں نجات دے گا، اور جو کوئی اللہ کی طرف بلانے والے کی دعوت کو قبول نہیں کرے گا، تو وہ زمین میں اللہ کو عاجز نہیں کرسکتا، اور اللہ کے سوا اس کا کوئی یارومددگار نہیں ہوگا، وہی لوگ کھلی گمراہی میں ہیں۔‘‘ [1]
سیّدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی روایت ہے کہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نکلا ، یہاں تک کہ مجھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک کھلے میدان میں لے آئے، پھر ایک لکیر کھینچ دی اور مجھ سے کہا: اس جگہ سے نہ ہٹنا، یہاں تک کہ میں تمہارے پاس واپس آجاؤں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم صبح تک نہیں آئے، اور جب آئے تو فرمایا: میں جنوں کی طرف بھی بھیجا گیا ہوں ، تو میں نے پوچھا: یہ آوازیں کیسی تھیں جنہیں میں سُن رہا تھا؟ ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : یہ انہی کی آوازیں تھیں جب انہوں نے مجھے رخصت کیا ہے اور مجھے سلام کیا ہے۔ [2]
محمد بن اسحاق لکھتے ہیں : جنوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان سے قرآن کو اس وقت سُنا جب آپ10 نبوی میں طائف سے لوٹ رہے تھے۔ لیکن یہ روایت صحیح نہیں ہے، اُس صحیح حدیث کی بنا پر جسے بخاری ومسلم نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابتدائے اسلام میں صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بازارِ عُکاظ کے قصد سے نکلے، اُس وقت شیاطینِ جن کو آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا گیا تھا، اور طائف سے لوٹنے کے وقت آپ کے ساتھ زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے سوا کوئی نہیں تھا۔
مکہ میں دعوتِ اسلامیہ کی خبریں پھیلنے لگیں:
مکہ میں اسلام کی دعوت خفیہ طور پر پھیلتی گئی، اوراہلِ مکہ کی ایک بڑی تعداد آہستہ آہستہ مشرف بہ اسلام ہوتی گئی، اسلام کی روشنی کب تک چھُپی رہتی، اسے ایک نہ ایک دن ظاہر ہونا ہی تھا، چنانچہ انتشارِ اسلام کی خبریں شُدہ شُدہ قریش تک پہنچنے لگیں ،اور انہوں نے اگرچہ ابتدا میں اس پر خاص دھیان نہیں دیا، لیکن ایک غیر شعوری خوف کا احساس اس دینِ جدید کی طرف سے انہیں ہونے لگا۔ اسلام کی دعوت خفیہ طور پر تقریبًا تین یاچار سال تک چلتی رہی، اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم مسلمانوں کے گھروں میں خفیہ طور پر ان کے ساتھ جمع ہوتے رہے، اور انہیں قرآن، توحیدِ خالص اور عقیدۂ صحیحہ کی تعلیم اُس وقت تک نازل شدہ وحی کی روشنی میں دیتے رہے، اور آنے والے زمانے کے لیے اللہ کے حکم کا انتظار کرتے رہے، یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اللہ کی وحی نازل ہوئی کہ آپ کو جوکچھ حکم دیا جاتا ہے ، اس کا اعلان کیجیے، اور لوگوں کو برملا اسلام اور عقیدۂ توحید کی دعوت دیجیے۔
[1] ۔اتحاف الوریٰ:1/188،189، نیز دیکھئے : صحیح البخاری، تفسیر سورۃ الجنّ، صحیح مسلم، کتاب الصلاۃ: حدیث(149)، سنن الترمذی، وسنن النسائی، کتاب التفسیر۔
[2] ۔ الوفائ:1/297۔