کتاب: الصادق الامین - صفحہ 180
خلاف بپھرگئے اور انہیں بُری طرح مارا پیٹا، تو عباس رضی اللہ عنہ دوبارہ ان پر جھک گئے۔ [1]
جنوں کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لانا اور اپنی قوم کو دعوتِ اسلام دینا:
عہدِ نبوت کے اسی ابتدائی دور میں ایک بار ایسا ہوا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کی ایک جماعت کے ساتھ بازارِ عُکاظ کے ارادے سے نکلے، اُس وقت شیاطین آسمان کی خبریں سننے سے روک دیے گئے تھے، اور ایسی جرأت کرنے والے شیاطین انگاروں سے مارے جانے لگے تھے، شیاطین اپنی قوم کے پاس لوٹے، اور انہیں بتایا کہ ہمیں آسمان کی خبریں سننے سے روک دیا گیا ہے، اور ہمیں انگاروں سے مارا جانے لگا ہے ، چنانچہ کچھ شیاطین مشرق ومغرب میں پھیل کر اس امر کا پتہ چلانے لگے، جس کے سبب ایسا ہواہے۔
جو شیاطینِ جِن تہامہ کی طرف نکلے تھے وہ مقام نخلہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک جاپہنچے۔ اُس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کے ساتھ فجر کی نماز پڑھ رہے تھے۔جب انہو ں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن سُنا تو کہنے لگے : اللہ کی قسم! یہی وہ چیز ہے جو تمہارے اور آسمان کی خبروں کے درمیان حائل ہوگئی ہے۔ اُن جنوں پر اللہ نے کرم کیا، وہ ایمان لے آئے اور اپنی قوم میں واپس آکر ان سے کہا: لوگو! ہم نے ایک بہت ہی عمدہ اور عجیب قرآن سنا ہے جو اللہ کی طرف رہنمائی کرتا ہے، اس لیے ہم اس پر ایمان لے آئے ہیں، اور اب ہم کبھی بھی اپنے ربّ کے ساتھ کسی کو شریک نہیں بنائیں گے۔ اسی موقع پر اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی پر ان آیات کو نازل فرمایا:
((قُلْ أُوحِيَ إِلَيَّ أَنَّهُ اسْتَمَعَ نَفَرٌ مِّنَ الْجِنِّ فَقَالُوا إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا)) [الجن:1]
’’میرے نبی! آپ کہہ دیجیے، میرے پاس وحی آئی ہے کہ جنوں کی ایک جماعت نے (قرآن) سنا، پھر انہوں نے (دوسرے جنوں سے ) کہا کہ ہم نے ایک بہت ہی عجیب قرآن سنا ہے۔‘‘
کہا جاتا ہے کہ جوجن رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تھے ، ان کی تعداد سات تھی، اور ان میں سے ایک کا نام زوبعہ تھا، جب انہو ں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی قرآن سنا تو ایک دوسرے سے کہنے لگے:خاموش رہو اور غور سے سنو! تو اللہ تعالیٰ نے نازل فرمایا:
((وَإِذْ صَرَفْنَا إِلَيْكَ نَفَرًا مِّنَ الْجِنِّ يَسْتَمِعُونَ الْقُرْآنَ فَلَمَّا حَضَرُوهُ قَالُوا أَنصِتُوا ۖ فَلَمَّا قُضِيَ وَلَّوْا إِلَىٰ قَوْمِهِم مُّنذِرِينَ ﴿29﴾ قَالُوا يَا قَوْمَنَا إِنَّا سَمِعْنَا كِتَابًا أُنزِلَ مِن بَعْدِ مُوسَىٰ مُصَدِّقًا لِّمَا بَيْنَ يَدَيْهِ يَهْدِي إِلَى الْحَقِّ وَإِلَىٰ طَرِيقٍ مُّسْتَقِيمٍ ﴿30﴾ يَا قَوْمَنَا أَجِيبُوا دَاعِيَ اللَّـهِ وَآمِنُوا بِهِ يَغْفِرْ لَكُم مِّن ذُنُوبِكُمْ وَيُجِرْكُم مِّنْ عَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿31﴾ وَمَن لَّا يُجِبْ دَاعِيَ اللَّـهِ فَلَيْسَ بِمُعْجِزٍ فِي الْأَرْضِ وَلَيْسَ لَهُ مِن دُونِهِ أَوْلِيَاءُ ۚ أُولَـٰئِكَ فِي ضَلَالٍ مُّبِينٍ)) [الأحقاف:29-32]
’’اور جب ہم نے آپ کی طرف جنوں کی ایک جماعت کو قرآن سننے کے لیے پھیر دیا تھا، پس جب وہ رسول اللہ کے پاس پہنچے تو انہوں نے کہا کہ تم سب کان لگاکر سنو، جب تلاوت ختم ہوگئی، تو وہ اپنی قوم کے پاس
[1] ۔ صحیح البخاری: حدیث(3522،3861)، صحیح مسلم:7/155-157۔