کتاب: الصادق الامین - صفحہ 179
ہاتھ بڑھائیے، میں آپ سے اسلام پر بیعت کرتا ہوں ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے بیعت لے لی اور ان سے کہا: میں تمہاری قوم کے سامنے دعوتِ اسلام پیش کرنے کے لیے بھی تم سے بیعت لیتا ہوں ۔ انہو ں نے کہا: مجھے یہ بات منظورہے۔(مسلم نے اسے کتاب الجمعہ میں حدیث (868) کے تحت اور امام احمد رحمہ اللہ نے مسند( 1/299 )میں روایت کیا ہے، اور اس کی سند قوی ہے)۔ ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ کا اسلام: اسلام کی طرف سبقت کرنے والوں میں سے ابوذر غفاری رضی اللہ عنہ بھی ہیں ، یہ بادیہ نشیں قبیلہ غفار سے تھے۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ جب ابوذ ر کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کی خبر ہوئی تو اپنے بھائی سے کہا: تم مکہ جاؤ اور اس آدمی کے بارے میں میرے لیے معلومات جمع کرکے لاؤ، جو نبی ہونے کا دعویٰ کرتا ہے، اور کہتا ہے کہ اس کے پاس آسمان سے خبر آتی ہے۔ جاؤ! اس کی بات سن کر آؤ۔ ان کا بھائی وہاں پہنچا،آپؐ کاکلام سُنا پھر لوٹ کر ابوذر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچا اور ان سے کہا: میں نے اسے مکارمِ اخلاق کا حکم دیتے ہوئے دیکھاہے، اور اس کے منہ سے ایک ایسا کلام سُنا ہے جو شعر نہیں ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے کہا: مجھے تمہاری بات سے اطمینان حاصل نہیں ہوا۔ اس کے بعد خود ہی زادِ سفر لے کر مکہ روانہ ہوگئے اور مسجدِ حرام پہنچ کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ڈھونڈنے لگے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وہ پہچانتے نہیں تھے، انہو ں نے کسی سے پوچھنا بھی مناسب نہیں سمجھا، یہاں تک کہ رات آگئی تو علی رضی اللہ عنہ نے انہیں دیکھ کر سمجھ لیا کہ یہ کوئی غریب الوطن ہے۔ ابوذر رضی اللہ عنہ ان کے پیچھے ہولیے اور دونوں میں سے کسی نے دوسرے سے صبح تک کوئی بات نہیں کی، پھر ابوذر رضی اللہ عنہ سامانِ سفر لے کر مسجد میں لوٹ آئے اور اس دن بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو نہیں دیکھا، یہاں تک کہ شام ہوگئی، تو پھر اپنے سونے کی جگہ لوٹ آئے۔ علی رضی اللہ عنہ نے ان سے اس بار پوچھا: کیا تم کو اب تک اپنی منزل نہیں ملی ہے؟ پھر انہیں اپنے ساتھ لے کر چلے گئے اور دونوں میں سے کسی نے دوسرے سے کوئی بات نہیں پوچھی، یہاں تک کہ جب تیسرا دن آیا تو وہ پھر علی رضی اللہ عنہ کے پاس لوٹ گئے اور وہیں قیام کیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے پوچھا: کیا تم اپنی آمد کا مقصد مجھے نہیں بتاؤگے؟ انہو ں نے کہا: اگر تم مجھ سے وعدہ کرتے ہو کہ میری رہنمائی کروگے تو میں بتاؤں گا؟ علی رضی اللہ عنہ نے وعدہ کیا تو انہوں نے اپنا مقصد بیان کردیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے کہا: یہ بات سچ ہے، اور محمد اللہ کے رسول ہیں۔ جب صبح ہو تو میرے پیچھے آؤ، اور میرے داخل ہونے کی جگہ داخل ہوجاؤ۔ ابوذر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا، علی رضی اللہ عنہ کے پیچھے چل کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچ گئے ، اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بات سنی تو فوراً اسلام قبول کرلیا، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے کہا: تم اپنی قوم کے پاس لوٹ جاؤ اور انہیں اسلام کی خبر دو، اور وہیں ٹھہرے رہو ، یہاں تک کہ تمہیں میری اعلانیہ دعوت کی اطلاع مل جائے۔ ابو ذر رضی اللہ عنہ نے کہا: اس اللہ کی قسم! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ! میں مشرکینِ قریش کے سامنے چیخ چیخ کر اپنے ایمان کا اعلان کروں گا، پھر نکل کر مسجد حرام آئے اور بلند آواز میں کہا: ((اَشْہَدُ اَنْ لَّا اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَرَسُوْلُہٗ۔))یہ سنتے ہی لوگ ان کے گرد جمع ہوگئے، انہیں پیٹ پیٹ کر زمین سے لگادیا۔ اُس وقت عباس رضی اللہ عنہ آگئے اور ان کے اوپر جھک گئے اور کہا: تم سب کا بُرا ہو، کیا تم جانتے نہیں ہو یہ قبیلہ غفار کا ہے اور شام میں تمہاری تجارت کا راستہ ان کے پاس سے گزرتا ہے ۔ پھر عباس رضی اللہ عنہ نے انہیں ان سے نجات دلائی۔ دوسرے دن ابوذر رضی اللہ عنہ نے پھر اُسی طرح اعلان کیا، تو لوگ ان کے