کتاب: الصادق الامین - صفحہ 161
غارِ حرا میں اللہ کی عبادت: امام احمد رحمہ اللہ نے سیّدنا ابن عباس رضی اللہ عنھما سے روایت کی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المؤمنین سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے کہا: میں ایک طرح کی روشنی دیکھتا ہوں، اور ایک آواز سنتا ہوں ، مجھے ڈر ہے کہ کہیں مجھے جنون تو لاحق نہیں ہوگیا؟! انہوں نے کہا: اے ابنِ عبداللہ ! اللہ تعالیٰ آپ کے ساتھ ایسا کبھی نہیں کرے گا۔ پھر وہ ورقہ بن نوفل کے پاس آئیں، اور اُن کو واقعۂ حال سے مطلع کیا، تو انہوں نے کہا: اگرانہوں نے سچ کہا ہے تو یہ ناموسِ موسیٰ کی مانند ناموس ہے ۔ اگر وہ نبی بنائے گئے ، اور میں زندہ رہا تو اُن کی مدد کروں گا، اور اُن کے کام آؤں گا، اور اُن پر ایمان لے آؤں گا۔ [1] اُس دوران آپ صلی اللہ علیہ وسلم میں خلوت نشینی کی رغبت شدید تر ہوگئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم دینِ ابراہیمی کے مطابق اپنے اللہ کو خوب یاد کرتے ، اس کی عبادت میں لگے رہتے، اور ایسا لگتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پاکیزہ اور صاف وشفاف روح اس امرِ عظیم کا غایت درجہ اشتیاق کے ساتھ انتظار کرنے لگی جسے قبول کرنے کے لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر طرح تیار تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی خلوت نشینی کے لیے جبلِ نورمیں موجود غارِ حرا کو پسند فرمایا، جہاں سے خانۂ کعبہ سیدھا نظر آتا تھا؛ اور وہاں سے تقریبًا تین میل کی دوری پر تھا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم وہاں خلوت میں دینِ ابراہیمی کے مطابق کئی کئی راتیں اپنے رب کی عبادت کرتے رہتے، اور جب کھانا اور پانی ختم ہوجاتا تو سیّدہ خدیجہ رضی اللہ عنہ کے پاس آتے، اور دوبارہ کھانا پانی لے کر غار میں لوٹ جاتے۔ بعثت سے پہلے کے چند آخری سالوں میں توآپ صلی اللہ علیہ وسلم ماہِ رمضان میں مکہ کو چھوڑ ہی دیتے، اور پورا مہینہ اُسی غار میں گزارتے۔ اور بلاشبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا غارِ حرا کو اختیار کرنا مشیتِ الٰہی کے مطابق تھا، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعوتِ اسلامیہ کا بارِ گراں اٹھانے اور اُس امرِ عظیم کے استقبال کے لیے اپنے آپ کو تیار کریں جس کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید انتظار تھا۔ سچے خواب کی تعبیر صبحِ صادق کی طرح ظاہر ہوتی : بعثت سے تقریبًا چھ سال پہلے سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سچے خواب دیکھنے لگے، جن کی تعبیریں فوراً صبح صادق کی مانند ظاہر ہوجاتیں۔ امام بخاری رحمہ اللہ نے سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنھا سے روایت کیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نزولِ وحی کی ابتدا سچے خوابوں کی صورت میں ہوئی، اور جب بھی کوئی خواب دیکھتے تو اس کی تعبیر صبحِ صادق کی طرح سامنے آجاتی۔ [2] اس بات کی تائید محمد بن اسحاق کی عبید بن عمیر لیثی سے مروی حدیث سے ہوتی ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میں سویا ہوا تھا تو جبریل علیہ السلام میرے پاس دیباج کے ایک ٹکڑے میں لپٹی ایک کتاب لے کر آئے، اور کہا: پڑھئے۔ میں نے کہا: مجھے پڑھنا نہیں آتا۔ تو جبریل علیہ السلام نے اتنا زور سے مجھے دبایا کہ میں سمجھا، اب میری موت قریب ہے، پھر مجھے چھوڑ دیا۔ [3]
[1] ۔ مسند احمد:1/312، مجمع الزوائد، ہیثمی:8/255، اور کہا ہے کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اسے متصل ومرسل دونوں طرح روایت کی ہے۔اور احمد شاکر رحمہ اللہ نے اسے صحیح کہا ہے، حدیث(2846)۔ [2] ۔ صحیح البخاری، تفسیر: حدیث(4953)، بدء الوحی:حدیث(3)۔ [3] ۔ سیرۃ ابن ہشام:1/252، اس کی سند مرسل صحیح ہے۔