کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 999
کے اندر اندر بالکل اچانک اور نہایت تیز رفتاری سے پیش آگیا۔ ورنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے منتخب صحابہ کرام جو لڑائی کے دوران صفِ اوّل میں تھے، جنگ کی صورت ِ حال بدلتے ہی یا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سنتے ہی آپ کی طرف بے تحاشا دوڑ کر آئے کہ کہیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی ناگوار حادثہ پیش نہ آجائے۔ مگر یہ لوگ پہنچے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم زخمی ہوچکے تھے۔ چھ انصاری شہید ہوچکے تھے ساتویں زخمی ہوکر گر چکے تھے۔ اور حضرت سعد رضی اللہ عنہ اور حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ جان توڑ کر مدافعت کررہے تھے۔ ان لوگوں نے پہنچتے ہی اپنے جسموں اور ہتھیاروں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ایک باڑھ تیار کردی۔ اور دشمن کے تابڑ توڑ حملے روکنے میں انتہائی بہادری سے کام لیا۔ لڑائی کی صف سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کر آنے والے سب سے پہلے صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے یارِ غار حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ تھے۔ ابن حبان نے اپنی صحیح میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت کی ہے کہ ابو بکر رضی اللہ عنہ نے فرمایا : اُحد کے دن سارے لوگ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے پلٹ گئے تھے۔ (یعنی محافظین کے سوا تمام صحابہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ کی قیام گاہ میں چھوڑ کر لڑائی کے لیے اگلی صفوں میں چلے گئے تھے۔ پھر گھیراؤ کے حادثے کے بعد ) میں پہلا شخص تھا جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پلٹ کر آیا۔ دیکھا تو آپ کے سامنے ایک آدمی تھا۔ جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے لڑرہا تھا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بچا رہا تھا۔ میں نے (جی ہی جی میں ) کہا:تم طلحہ رضی اللہ عنہ ہو ؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ تم طلحہ ہوؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔ (چونکہ مجھ سے یہ لمحہ فوت ہو گیا تھا، اس لیے میں نے کہا کہ میری قوم ایک آدمی ہو تو یہ زیادہ پسندیدہ بات ہے۔ اتنے میں ابو عبیدہ بن جراح میرے پاس آگئے۔ وہ اس طرح دوڑ رہے تھے۔ گویا چڑیا (اُڑ رہی ) ہے۔ یہاں تک کہ مجھ سے آملے۔ اب ہم دونوں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف دوڑے۔ دیکھا تو آپ کے آگے طلحہ بچھے پڑے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : اپنے بھائی کو سنبھالو اس نے (جنت ) واجب کرلی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ (ہم پہنچے تو ) نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا چہرہ مبارک زخمی ہوچکا تھا۔ اور خُود کی دوکڑیاں آنکھ کے نیچے رخسار میں دھنس چکی تھیں۔ میں نے انہیں نکالنا چاہا تو ابو عبیدہ نے کہا: اللہ کا واسطہ دیتا ہوں مجھے نکالنے دیجیے۔ اس کے بعد انہوں نے منہ سے ایک کڑی پکڑ ی۔ اور آہستہ آہستہ نکالنی شروع کی تاکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اذیت نہ پہنچے۔ اور بالآخر ایک کڑی اپنے منہ سے کھینچ کر نکال دی لیکن ( اس کوشش میں ) ان کا ایک نچلا دانت گرگیا۔ اب دوسری میں نے کھینچنی چاہی تو ابو عبیدہ نے پھر کہا : ابوبکر !