کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 997
قاضی عیاض کی شفا میں یہ الفاظ ہیں : (( اللہم اہد قومي فإنہم لا یعلمون )) [1] ’’اے اللہ ! میری قوم کو ہدایت دے۔ وہ نہیں جانتی ۔‘‘ اس میں شبہ نہیں کہ مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کاکام تمام کردینا چاہتے تھے مگر دونوں قریشی صحابہ، یعنی حضرت سعد بن ابی وقاص اور طلحہ بن عبید اللہ رضی اللہ عنہما نے نادر الوجود جانبازی اور بے مثال بہادر ی سے کام لے کر صرف دوہوتے ہوئے مشرکین کی کامیابی ناممکن بنادی۔ یہ دونوں عرب کے ماہر ترین تیر انداز تھے۔ انہوں نے تیر مارمار کر مشرکین حملہ آوروں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پرے رکھا۔ جہاں تک سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ترکش کے سارے تیر ان کے لیے بکھیر دیئے۔ اور فرمایا: چلا ؤ۔ تم پر میرے ماں باپ فداہوں۔[2]ان کی صلاحیت کا اندازہ اس سے لگا یا جاسکتا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے سوا کسی اور کے لیے ماں باپ کے فدا ہونے کی بات نہیں کہی۔[3] اور جہاں تک حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ کا تعلق ہے تو ان کے کارنامے کا اندازہ نسائی کی ایک روایت سے لگا یا جاسکتا ہے۔ جس میں حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر مشرکین کے اس وقت کے حملے کا ذکر کیا ہے۔جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم انصار کی ذرا سی نفری کے ہمراہ تشریف فرماتھے۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ مشرکین نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جالیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کون ہے جو ان سے نمٹے ؟حضر ت طلحہ رضی اللہ عنہ نے کہا : میں۔ اس کے بعد حضرت جابر رضی اللہ عنہ نے انصار کے آگے بڑھے اور ایک ایک کر کے شہید ہونے کی تفصیل ذکر کی ہے جسے ہم صحیح مسلم کے حوالے سے بیان کر چکے ہیں۔ حضرت جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ جب یہ سب شہید ہوگئے تو حضرت طلحہ رضی اللہ عنہ آگے بڑھے۔ اور گیارہ آدمیوں کے برابر تنہا لڑائی کی۔ یہاں تک کہ ان کے ہاتھ پر تلوار کی ایک ایسی ضرب لگی جس سے ان کی انگلیاں کٹ گئیں۔ اس پر ان کے منہ سے آواز نکلی حس (سی)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم بسم اللہ کہتے تو تمہیں فرشتے اٹھا لیتے