کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 995
کے لیے جنت ہے ؟ یا (یہ فرمایا کہ ) وہ جنت میں میرا رفیق ہوگا؟ اس کے بعد ایک انصاری صحابی آگے بڑھے اور لڑتے لڑتے شہید ہوگئے۔ اس کے بعد پھر مشرکین آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بالکل قریب آگئے ، اور پھر یہی ہوا۔ اس طرح باری باری ساتوں انصاری صحابی شہید ہوگئے۔ اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے دو باقی ماندہ ساتھیوں ۔ یعنی قریشیوں۔ سے فرمایا : ہم نے اپنے ساتھیوں سے انصاف نہیں کیا۔ [1] ان ساتوں میں سے آخری صحابی حضرت عمارہ بن یزید بن السکن تھے، وہ لڑتے رہے لڑتے رہے یہاں تک کہ زخموں سے چور ہوکر گر پڑے۔ [2] ابن السکن کے گرنے کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ صرف دونوں قریشی صحابی رہ گئے تھے۔ چنانچہ صحیحین میں ابوعثمان رضی اللہ عنہ کا بیان مروی ہے کہ جن ایام میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے معرکہ آرائیاں کیں ان میں سے ایک لڑائی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ طلحہ بن عبید اللہ اور سعد (بن ابی وقاص)کے سوا کوئی نہ رہ گیا تھا۔ [3]اور یہ لمحہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی کے لیے نہایت ہی نازک ترین لمحہ تھا۔ جبکہ مشرکین کے لیے انتہائی سنہری موقع تھا۔ اور حقیقت یہ ہے کہ مشرکین نے اس موقعے سے فائدہ اٹھانے میں کوئی کوتاہی نہیں کی۔ انہوں نے اپنا تابڑ توڑ حملہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر مرکوز رکھا۔ اور چاہا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا کام تمام کردیں۔ اسی حملے میں عُتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پتھر مارا۔ جس سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پہلو کے بل گر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا داہنا نچلا رباعی[4] دانت ٹوٹ گیا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا نچلا ہونٹ زخمی ہوگیا۔ عبد اللہ بن شہاب زہری نے آگے بڑھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشانی زخمی کردی۔ ایک اور اڑیل سوار عبداللہ بن قمئہ نے لپک کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کندھے پر ایسی سخت تلوار