کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 993
ہاتھ پر ہاتھ دھرے پڑے ہیں۔ پوچھا کاہے کا انتظار ہے ؟ جواب دیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم قتل کر دیئے گئے۔ حضرت انس بن نضر نے کہا : تو اب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد تم لوگ زندہ رہ کر کیا کرو گے ؟ اُٹھو! اور جس چیز پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جان دی اسی پر تم بھی جان دیدو۔ اس کے بعد کہا : اے اللہ ! ان لوگوں نے یعنی مسلمانوں نے جو کچھ کیا ہے اس پر میں تیرے حضور معذرت کرتا ہوں۔ اور ان لوگوں نے یعنی مشرکین نے جو کچھ کیا ہے اس سے براء ت اختیار کرتا ہوں۔ اور یہ کہہ کر آگے بڑ ھ گئے۔ آگے حضرت سعد رضی اللہ عنہ بن معاذ سے ملاقات ہوئی۔ انہوں نے دریافت کیا: ابو عمر ! کہاں جارہے ہو ؟ حضرت انس رضی اللہ عنہ نے جواب دیا : آہا ، جنت کی خوشبو کا کیا کہنا۔ اے سعد ! میں اسے احد کے پرے محسوس کررہاہوں۔ اس کے بعد اور آگے بڑھے اور مشرکین سے لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ خاتمہ ٔ جنگ کے بعد انہیں پہچانا نہ جاسکا حتی ٰ کہ ان کی بہن نے انہیں محض انگلیوں کے پور سے پہچانا۔ ان کو نیزے،تلوار اور تیر کے اسی ۸۰ سے زیا دہ زخم آئے تھے۔[1]
اسی طرح ثابت بن دَحداح رضی اللہ عنہ نے اپنی قوم کو پکارکر کہا : اگر محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے ہیں تو اللہ تو زندہ ہے۔ وہ تو نہیں مر سکتا۔ تم اپنے دین کے لیے لڑو۔ اللہ تمہیں فتح ومدد دے گا۔ اس پر انصار کی ایک جماعت اٹھ پڑی۔ اور حضرت ثابت رضی اللہ عنہ نے ان کی مدد سے خالد کے رسالے پر حملہ کردیا۔ اور لڑتے لڑتے حضرت خالد کے ہاتھوں نیزے سے شہید ہوگئے، انہی کی طرح ان کے رفقاء نے بھی لڑتے لڑتے جام ِ شہادت نوش کیا۔[2]
ایک مہاجر صحابی ایک انصاری صحابی کے پاس سے گزرے جو خون میں لت پت تھے۔ مہاجر نے کہا : بھئ فلاں! آپ کو معلوم ہوچکا ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے۔ انصار ی نے کہا : اگرمحمد صلی اللہ علیہ وسلم قتل کردیئے گئے تو وہ اللہ کا دین پہنچاچکے ہیں۔ اب تمہارا کام ہے کہ اس دین کی حفاظت کے لیے لڑو۔[3]
اس طرح کی حوصلہ افزا اور ولولہ انگیز باتوں سے اسلامی فوج کے حوصلے بحال ہوگئے۔ اوران کے ہوش وحواس اپنی جگہ آگئے۔ چنانچہ اب انہوں نے ہتھیار ڈالنے یا ابن اُبی ّ سے مل کر طلب ِ امان کی بات سوچنے کے بجائے ہتھیار اٹھالیے۔ اور مشرکین کے تند سیلاب سے