کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 986
’’میں نے اس نخلستان کے دامن میں اپنے خلیل صلی اللہ علیہ وسلم سے عہد کیا ہے کہ کبھی صفوں کے پیچھے نہ رہوں گا۔ (بلکہ آگے بڑھ کر ) اللہ اور اس کے رسول ؐ کی تلوار چلاؤں گا۔‘‘ اس کے بعد انہیں جو بھی مل جاتا اسے قتل کردیتے۔ ادھر مشرکین میں ایک شخص تھا جو ہمارے کسی بھی زخمی کو پاجاتا تو اس کا خاتمہ کردیتا تھا۔ یہ دونوں رفتہ رفتہ قریب ہورہے تھے۔ میں نے اللہ سے دعا کی کہ دونوں میں ٹکر ہوجائے۔ اور واقعتا ٹکر ہوگئی۔ دونوں نے ایک دوسر ے پر ایک ایک وار کیا۔ پہلے مشرک نے ابو دجانہ پر تلوار چلائی، لیکن ابو دجانہ نے یہ حملہ ڈھال پر روک لیا۔ اور مشرک کی تلوار ڈھال میں پھنس کر رہ گئی۔ اس کے بعد ابودجانہ نے تلوار چلائی اور مشرک کو وہیں ڈھیر کردیا۔[1] اس کے بعد ابو دجانہ صفوں پر صفیں درہم برہم کرتے ہوئے آگے بڑھے، یہاں تک کہ قریشی عورتوں کی کمانڈر تک جاپہنچے۔ انہیں معلوم نہ تھا کہ یہ عورت ہے۔ چنانچہ ان کا بیان ہے کہ میں نے ایک انسان کو دیکھا وہ لوگوں کو بڑے زور وشور سے جوش وولولہ دلارہا تھا۔ اس لیے میں نے اس کو نشانے پر لے لیا لیکن جب تلوار سے حملہ کرنا چاہا تو اس نے ہائے پکار مچائی اور پتہ چلا کہ عورت ہے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تلوار کو بٹہ نہ لگنے دیا کہ اس سے کسی عورت کو ماروں۔ یہ عورت ہند بنت عتبہ تھی۔ چنانچہ حضرت زُبیر بن عوام رضی اللہ عنہ کا بیان ہے کہ میں نے ابو دجانہ کو دیکھاکہ انہوں نے ہند بنت عتبہ کے سر کے بیچوں بیچ تلوار بلند کی، اور پھر ہٹالی۔ میں نے کہا : اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم بہتر جانتے ہیں۔[2] ادھر حضرت حمزہ رضی اللہ عنہ بھی بپھرے ہوئے شیر کی طرح جنگ لڑرہے تھے۔ اور بے نظیر مار دھاڑ کے ساتھ قلب لشکر کی طرف بڑھے اور چڑھے جارہے تھے۔ ان کے سامنے سے بڑے بڑے بہادر اس طرح بکھر جاتے تھے جیسے چومکھی ہوا میں پتے اُڑرہے ہوں۔ انہوں نے مشرکین کے علمبرداروں کے صفائے میں نمایاں رول ادا کرنے کے علاوہ ان کے بڑے بڑے جانبازوں اور بہادروں کا بھی حال خراب کر رکھا تھا لیکن صد حیف کہ اسی عالم میں ان کی شہادت واقع ہوگئی۔ مگر انہیں بہادروں کی طرح رُو در رُو لڑ کر شہیدنہیں کیا گیا بلکہ بزدلوں