کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 979
’’ہماری پشت کی حفاظت کرنا۔ اگر دیکھو کہ ہم مارے جارہے ہیں تو ہماری مدد کو نہ آنا اور اگر دیکھوکہ ہم مال غنیمت سمیٹ رہے ہیں تو ہمارے ساتھ شریک نہ ہونا۔‘‘[1]اور صحیح بخاری کے الفاظ کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یوں فرمایا : ’’اگر تم لوگ دیکھو کہ ہمیں پرندے اچک رہے ہیں تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑ نا یہاں تک کہ میں بلابھیجوں ، اور اگر تم لوگ دیکھو کہ ہم نے قوم کو شکست دے دی ہے اور انہیں کچل دیا ہے تو بھی اپنی جگہ نہ چھوڑنا یہاں تک کہ میں بلا بھیجوں۔‘‘[2]
ان سخت ترین فوجی احکامات وہدایات کے ساتھ اس دستے کو اس پہاڑی پر متعین فرماکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ واحد شگاف بند فرمادیا جس سے نفوذ کر کے مشرکین کا رسالہ مسلمانوں کی صفوں کے پیچھے پہنچ سکتا تھا اور ان کو محاصر ے اور نرغے میں لے سکتا تھا۔
باقی لشکر کی ترتیب یہ تھی کہ مَیمنہ پر حضرت مُنْذِر رضی اللہ عنہ بن عَمرو مقرر ہوئے اور مَیْسَرہ پر حضرت زُبیر رضی اللہ عنہ بن عوام ۔ اور ان کا معاون حضرت مِقداد رضی اللہ عنہ بن اسود کو بنایا گیا ۔ حضرت زبیر رضی اللہ عنہ کو یہ مہم بھی سونپی گئی کہ وہ خالد بن ولید کے شہسواروں کی راہ روکے رکھیں۔ اس ترتیب کے علاوہ صف کے اگلے حصے میں ایسے ممتاز اور منتخب بہادر مسلمان رکھے گئے جس کی جانبازی ودلیری کا شہرہ تھا۔ اور جنہیں ہزاروں کے برابر ماناجاتا تھا۔
یہ منصوبہ بڑی باریکی اور حکمت پر مبنی تھا۔ جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی فوجی قیادت کی عبقریت کا پتہ چلتا ہے۔ اور ثابت ہوتا ہے کہ کوئی کمانڈر خواہ کیسا ہی بالیاقت کیوں نہ ہو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے زیادہ باریک اور باحکمت منصوبہ تیارنہیں کرسکتا۔کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم باوجود یکہ دشمن کے بعد یہاں تشریف لائے تھے۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے لشکر کے لیے وہ مقام منتخب فرمایا جو جنگی نقطۂ نظر سے میدانِ جنگ کا سب سے بہترین مقام تھا۔ یعنی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہاڑ کی بلندیوں کی اوٹ لے کر اپنی پُشت اور دایاں بازو محفوظ کرلیا۔ اور بائیں بازو دورانِ جنگ جس واحد شگاف سے حملہ کر کے پُشت تک پہنچا جاسکتا تھا اسے تیر اندازوں کے ذریعے بند کردیا۔ اور پڑاؤ کے لیے ایک اونچی جگہ منتخب فرمائی کہ اگر خدانخواستہ شکست سے دوچار ہونا پڑے تو بھا گنے اور تعاقب کنندگان کی قید میں جانے کے بجائے کیمپ میں پناہ لی جاس کے۔ اور اگر دشمن کیمپ پرقبضے کے