کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 973
زِرہ کی یہ تعبیر بتلائی کہ اس سے مراد شہر مدینہ ہے۔ پھرآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے سامنے دفاعی حکمت ِ عملی کے متعلق اپنی رائے پیش کی کہ مدینے سے باہر نہ نکلیں بلکہ شہر کے اندر ہی قلعہ بند ہوجائیں۔ اب اگر مشرکین اپنے کیمپ میں مقیم رہتے ہیں تو بے مقصد اور بُرا قیام ہوگا اور اگر مدینے میں داخل ہوتے ہیں تو مسلمان گلی کوچے کے ناکوں پر ان سے جنگ کریں گے اور عورتیں چھتوں کے اُوپر سے ان پر خشت باری کریں گی۔ یہی صحیح رائے تھی اور اسی رائے سے عبد اللہ بن اُبی ّ راس المنافقین نے بھی اتفاق کیا جوا س مجلس میں خزرج کے ایک سر کردہ نمائندہ کی حیثیت سے شریک تھا لیکن اس کے اتفاق کی بنیاد یہ نہ تھی کہ جنگی نقطۂ نظر سے یہی صحیح موقف تھا بلکہ اس کا مقصد یہ تھا کہ وہ جنگ سے دور بھی رہے اور کسی کو اس کا احساس بھی نہ ہو۔ لیکن اللہ کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ اس نے چاہا کہ یہ شخص اپنے رفقاء سمیت پہلی بار سر عام رسوا ہوجائے اور اُن کے کفر ونفاق پر جو پردہ پڑا ہوا ہے وہ ہٹ جائے، اور مسلمانوں کو اپنے مشکل ترین وقت میں معلوم ہوجائے کہ کی آستین میں کتنے سانپ رینگ رہے ہیں۔ چنانچہ فضلاء ِ صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت نے جو بدر میں شرکت سے رہ گئی تھی ، بڑھ کر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو مشورہ دیا کہ میدان میں تشریف لے چلیں اور انہوں نے اپنی اس رائے پر سخت اصرار کیا ، حتیٰ کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہ نے کہا : ’’اے اللہ کے رسول! ہم تو اس دن کی تمنا کیا کرتے تھے اور اللہ سے اس کی دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اب اللہ نے یہ موقع فراہم کردیا ہے اور میدان میں نکلنے کا وقت آگیا ہے توپھرآپ ؐ دشمن کے مد ِ مقابل ہی تشریف لے چلیں وہ یہ نہ سمجھیں کہ ہم ڈر گئے ہیں۔ ان گرم جوش حضرات میں خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت حمزہ بن عبد المطلب سر فہرست تھے جو معرکہ ٔ بدر میں اپنی تلوار کا جوہر دکھلا چکے تھے۔ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کی کہ اس ذات کی قسم جس نے آپ پر کتاب نازل کی میں کوئی غذانہ چکھوں گا یہاں تک کہ مدینہ سے باہر اپنی تلوار کے ذریعے ان سے دودو ہاتھ کر لوں۔[1] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں کے اصرار کے سامنے اپنی رائے ترک کردی اور آخری