کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 965
جو ابھی نئی نویلی دلہن تھی____کہا : ’’ اس وقت کہاں جارہے ہیں ؟ میں ایسی آواز سن رہی ہوں جس سے گویا خون ٹپک رہا ہے۔‘‘ کعب نے کہا :’’یہ تو میرا بھائی محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ اور میرا دودھ کا ساتھی ابو نائلہ رضی اللہ عنہ ہے۔ کریم آدمی کو اگر نیزے کی مار کی طرف بلایا جائے تو اس پکار پر بھی وہ جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ باہر آگیا۔ خوشبو میں بسا ہواتھا اور سر سے خوشبو کی لہریں پھوٹ رہی تھیں۔ ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے اپنے ساتھیوں سے کہہ رکھاتھا کہ جب وہ آجائے گا تومیں اس کے بال پکڑ کر سونگھوں گا۔ جب تم دیکھنا کہ میں نے اس کا سر پکڑ کر اسے قابو میں کرلیا ہے تو اس پر پل پڑنا ____اور اسے مار ڈالنا۔ چنانچہ جب کعب آیا تو کچھ دیر باتیں ہوتی رہیں۔ پھر ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ابن اشرف!کیوں نہ شِعب عجوز تک چلیں، ذرآج رات باتیں کی جائیں۔‘‘ اس نے کہا : اگر تم چاہتے ہو تو چلتے ہیں ؟ اس پر سب لوگ چل پڑے۔ اثنا ء راہ میں ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا : آج جیسی عمدہ خوشبوتو میں نے کبھی دیکھی ہی نہیں۔یہ سن کر کعب کا سینہ فخر سے تن گیا۔ کہنے لگا : میرے پاس عرب کی سب سے زیادہ خوشبو والی عور ت ہے۔ ابو نائلہ نے کہا : اجازت ہوتو ذرآپ کا سر سونگھ لوں ؟ وہ بو لا: ہا ں ہاں۔ ابو نائلہ نے اس کے سر میں اپنا ہاتھ ڈالا۔ پھر خود بھی سونگھا اور ساتھیوں کو بھی سونگھایا۔ کچھ اور چلے توابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا : بھئ ایک بار اور۔ کعب نے کہا : ہاں ہاں ، ابو نائلہ نے پھر وہی حرکت کی یہاں تک کہ وہ مطمئن ہوگیا۔ اس کے بعد کچھ اور چلے تو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے پھر کہا : بھئ ایک باراور۔ اس نے کہا : ٹھیک ہے۔ اب کی بار ابو نائلہ نے اس کے سر میں ہاتھ ڈال کر ذرا اچھی طرح پکڑ لیا تو بولے :’’لے لو اللہ کے اس دشمن کو۔‘‘ اتنے میں اس پر کئی تلواریں پڑیں ، لیکن کچھ کام نہ دے سکیں۔ یہ دیکھ کر محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ نے جھٹ اپنی کدال لی اور اس کے پیڑو پر لگا کر چڑھ بیٹھے۔ کدال آر پار ہوگئی ا ور اللہ کا دشمن وہیں ڈھیر ہوگیا۔ حملے کے دوران اس نے اتنی زبردست چیخ لگائی تھی کہ گرد وپیش میں ہلچل مچ گئی اور کوئی ایسا قلعہ باقی نہ بچا جس پر آگ روشن نہ کی گئی ہو۔ (لیکن ہوا کچھ بھی نہیں) کارروائی کے دوران حضرت حارث رضی اللہ عنہ بن اوس کو بعض ساتھیوں کی تلوار کی نوک لگ گئی تھی۔ جس سے وہ زخمی ہوگئے تھے اور ان کے جسم سے خون بہہ رہا تھا ، چنانچہ واپسی میں جب یہ دستہ حرہ ٔ عریض پہنچا تو دیکھا کہ حارث رضی اللہ عنہ ساتھ نہیں ہیں، اس لیے سب لوگ وہیں رک گئے۔ تھوڑی دیر