کتاب: الرحیق المختوم - صفحہ 964
اس نے کہا :’’تو پھر اپنے بیٹوں ہی کو رہن رکھ دو۔‘‘
محمد بن مسلمہ رضی اللہ عنہ نے کاکہا :’’ہم اپنے بیٹوں کو کیسے رہن رکھ دیں ؟ اگر ایسا ہوگیا تو انہیں گالی دی جائے گی کہ یہ ایک وسق یا دووسق کے بدلے رہن رکھا گیا تھا۔ یہ ہمارے لیے عار کی بات ہے۔ البتہ ہم آپ کے پاس ہتھیار رہن رکھ سکتے ہیں۔‘‘
اس کے بعد دونوں میں طے ہوگیا کہ محمدبن مسلمہ رضی اللہ عنہ (ہتھیار لے کر ) اس کے پاس آئیں گے۔
ادھر ابو نائلہ نے بھی اسی طرح کا اقدام کیا ، یعنی کعب بن اشرف کے پاس آئے۔ کچھ دیر اِدھر اُدھر کے اشعار سنتے سناتے رہے پھر بو لے :’’بھئ ابن اشرف ! میں ایک ضرورت سے آیا ہوں ، اسے ذکرکرنا چاہتا ہوں ، لیکن اسے آپ ذراصیغہ ٔ راز ہی میں رکھیں گے۔‘‘
کعب نے کہا:’’ ٹھیک ہے میں ایسا ہی کروں گا۔ ‘‘
ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے کہا :’’ بھئ اس شخص …اشارہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف تھا …کی آمد تو ہمارے لیے آزمائش بن گئی ہے۔ ساراعرب ہمارا دشمن ہوگیا ہے۔ سب نے ہمارے خلاف اتحاد کرلیا ہے ، ہماری راہیں بند ہوگئی ہیں، اہل وعیال برباد ہورہے ہیں ، جانوں پر بن آئی ہے، ہم اور ہمارے بال بچے مشقتوں سے چورچور ہیں۔‘‘ اس کے بعد انہوں نے بھی کچھ اسی ڈھنگ کی گفتگو کی جیسی محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ نے کی تھی۔ دورانِ گفتگو ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے بھی کہا کہ میرے کچھ رفقا ء ہیں جن کے خیالات بھی بالکل میرے ہی جیسے ہیں۔ انہیں بھی آپ کے پاس لانا چاہتا ہوں۔ آپ ان کے ہاتھ بھی کچھ بیچیں اور ان پر احسان کریں۔
محمد رضی اللہ عنہ بن مسلمہ اور ابو نائلہ رضی اللہ عنہ اپنی اپنی گفتگو کے ذریعے اپنے مقصد میں کامیاب رہے کیونکہ اس گفتگوکے بعد ہتھیا ر اور رفقاء سمیت ان دونوں کی آمد پرکعب بن اشرف چونک نہیں سکتا تھا۔ اس ابتدائی مرحلے کو مکمل کر لینے کے بعد ۱۴۔ ربیع الاول ۳ ھ کی چاندنی رات کو یہ مختصر سا دستہ رسو ل اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جمع ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بقیع غَرقد تک ان کی مشایعت فرمائی۔ پھر فرمایا : اللہ کے نام لے کر جاؤ۔ اللہ تمہاری مدد فرمائے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے گھر پلٹ آئے اور نماز و مناجات میں مشغول ہوگئے۔
ادھر یہ دستہ کعب بن اشرف کے قلعے کے دامن میں پہنچا تو اسے ابو نائلہ رضی اللہ عنہ نے قدرے زور سے آواز دی۔ آواز سن کر وہ ان کے پا س آنے کے لیے اٹھا تو اس کی بیوی نے____